أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُم مَّا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ
کیا انہوں نے اس بات میں غور و فکر ہی نہیں کیا (١) بلکہ ان کے پاس وہ آیا جو ان کے اگلے باپ دادوں کے پاس نہیں آیا تھا (٢)۔
کیا انہوں نے اس بات یعنی قرآنی احکام پر کبھی غور نہیں کیا کہ کس طرح کا کلام با نظام ہے جو مردہ دلوں کلئے ا حکیمانہ صحت کا پیام ہے آہ افسوس یہ لوگ غور اور فکر سے کام نہیں لیتے یا ان کے پاس رسول کے ذریعہ سے کوئی ایسی بات آئی ہے جو ان کے باپ دادوں حضرت اسماعیل اور اانکی قریب کی نسل کے پاس نہ آئی تھی (یہ لفظ اس لئے بڑھایا گیا ہے کہ خود قرآن مجید کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے لوگ خود یہ کہتے تھے ماسمعنا بھذا فی الملۃ الاخرۃ یعنی ہم نے یہ بات جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے پہلے لوگوں میں نہیں سنی نیز یہ بھی ارشاد ہے لتنذر قوما ماانذر ابآء ھم فھم غفلون یعنی اے نبی تم ان لوگوں کو سمجھائو جس کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے اس لئے وہ غافل ہیں اور ان جیسی کئی ایک اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ عربیوں کے باپ دادا کو واقعی اس قسم کی ہدایت نہیں آئی تھی پھر اس آیت میں جو تعجب سے یہ کہا گیا کہ ان کے پاس کوئی ایسی بات آئی ہے جو ان کے باپ دادا کو نہیں آئی تھی حالانکہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ان کے باپ دادا کے پاس یہ تعلیم نہ آئی تھی اس لئے یہ قید لگائی گئی ہے اور یہ قید قرآن مجید کے لفظ الاولین سے بھی مستنبط ہوسکتی ہے۔ ١٢ منہ)