سورة البقرة - آیت 267

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو (١) ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرو جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ہاں اگر آنکھیں بند کرلو تو (٢) اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(267۔284)۔ تمہارے ہی فائدہ کو بتلاتا ہے کہ مسلمانو ! اپنی کمائی میں سے عمدہ عمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرو اور اس میں سے بھی دو جو ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں اور یہ سمجھ کر کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے اسی نے ہمارے لئے زمین سے پیدا کیا ہے اس میں سے گندی چیز کے دینے کا قصد نہ کیا کرو۔ کیا ایسی گندی چیز اللہ کی راہ میں دیتے ہو۔ حالانکہ اگر تم کو کوئی دے تو خود اسے نہیں لیتے ہو ہاں جب قصداً اس سے چشم پوشی کرجاؤ اور بوجہ ناداری مقروض یا اپنی ضروری حاجت کے وہی معیوب لے لو تو اور بات ہے مگر اللہ تعالیٰ کو نہ تو حاجت ہے کہ خواہ مخواہ یہی قبول کرے اور نہ تمہارے فقر فاقہ کی اسے پرواہ کہ اپنے حق کے ضائع ہونے سے ڈرے ایسے خیالات فاسدہ کو دل میں نہ آنے دو اور یقینا جانو کہ اللہ تمہارے مال متاع اور خرچ برچ سے بالکل بے نیاز اور اپنی ذات میں تعریف والاہے تم نے کیا سمجھا کہ وہ تمہارے مالوں کا محتاج ہے ہرگز نہیں۔ وہ تو تمہارے ہی بھلے کو کہتا ہے۔ اگر بھلائی چاہتے ہو تو فوراً خرچ کرو۔ ورنہ شیطان تمہارا دشمن قدیم تمہارے پیچھے لگا ہوا ہے وہ ہر وقت تم کو فقر فاقہ سے ڈراتا ہے کہ اگر کارخیر میں خرچ کرو گے تو تمہاری فلاں حاجت رک جائے گی ۔ بیٹے بیٹی کی شادی پر تمہیں اتناروپیہ چاہیے۔ اور برے کاموں اور بے حیائی کے طریق بتلاتا ہے ہمیشہ شراب نوشی کراتا ہے رنڈیوں کا ناچ دکھلاتا ہے ” ہمارے زمانہ کے امراء اس آیت کو بغور دیکھیں جن کی امیری سے بجز رنڈیوں اور شراب فروشوں کے کسی کو فیض نہیں ١٢ منہ “ اور اللہ تو باوجود اس کے کہ سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے پھر بھی تمہیں اس کے خرچ کرنے پر اپنی بخشش اور فراخی کا وعدہ دیتا ہے اور اللہ بڑی ہی وسعت والا اور جاننے والاہے جس کو چاہے سمجھ اور تہذیب دے دیتا ہے جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان کر اللہ سے اپنی نسبت جان جاتا ہے اور جسے اس امر کی سمجھ ملے کہ میں کیا ہوں اور اللہ کا کہاں تک محتاج ہوں اور اس سے میری نسبت کیا ہے سچ جانو کہ اسے تو بہت سے بھلائی مل گئی مگر اس بات کو سوائے کا مل عقل والوں کے کوئی نہیں سمجھتا اور کوتاہ اندیشوں کا خیال اس کے برخلاف ہے۔ وہ بھلائی دولت کا نام رکھتی ہیں حالانکہ دولت کوئی عزت یا دانائی کی موجب نہیں بہت سے دولت مند ایسے احمق ہیں کہ قطع نظر ان کی دولت مندی کے کوئی ان کی بات سننے کو بھی پسند نہیں کرتا۔ اور بہت سے امیر اپنی بدکرداری اور بخل کی وجہ سے ہر ایک نظر میں حقیر اور ذلیل ہوتے ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ تم بخوشی خاطر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو یا بوقت ضرورت اللہ کے لئے کوئی نذر اپنے ذمہ مانتے ہو۔ تو سب کی جزا موافق تمہاری نیت کے ملے گی اس لئے کہ اللہ اس کو خوب جانتا ہے اور جو لوگ دیتے ہوئے ریا کو داخل کرتے ہیں ایسے ظالموں کو سخت سزا ملے گی اور ان کا کوئی حمائتی نہیں ہوگا جو ان کو اللہ کی پکڑسے بچاسکے جب ہی تو تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اخلاص مندی سے خرچ کرو چاہے تھوڑا کرو اگر بہ نیت اخلاص ظاہر کر کے خیرات دو گے تو بھی بہتر ہے اور اگر چھپا کر فقراء کو بانٹو گے تو وہ بہت ہی بہتر ہے اس لئے کہ چھپانے میں بہ نسبت اظہار کے ریا کو دخل کم ہے غرض ریا سے بچو گے تو اللہ تمہارے صدقات قبول کرے گا اور اللہ تمہارے گناہ دور کرے گا اس لئے کہ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے تو اے رسول سچی راہ بتلادے اور خرچ کرنے کے طریق سکھا دے یہ تیرے ذمہ نہیں کہ ان کو راہ رست پر لاوے لیکن اللہ جس کو چاہے سیدھی راہ پر لے آتا ہے۔ ہر ایک کام کی سمجھ دیدیتا ہے کہ اسلام کیا ہے۔ صدقات خیرات کا کیا ڈھب ہے۔ اور تو یہ بھی بتلادے کہ جو مال تم خرچ کرتے ہو سو تمہارے ہی لئے ہے اور مناسب نہیں کہ اللہ کی خوشی حاصل کرنے کے سوا کسی اور غرض سے خرچ کرو۔ اور اس طریق سے جو مال خرچ کروگے اس کا بدلہ تم کو پورا ملے گا اور تمہارا کچھ بھی نقصان نہ ہوگا۔ جیسا کہ دینے میں اخلاص نیت ضروری ہے ایسا ہی مصرف کی تلاش بھی لازم ہے یعنی یہ بھی دیکھا کرو کہ کسی کو دیں ایسا نہ ہو کہ تم اخلاص سے دو مگر لینے والا اس کا مستحق نہ ہو جس سے مستحق کی حق تلفی لازم آوے اس لئے ہم ہی بتلائے دیتے ہیں کہ اس خرچ کے زیادہ حقدار کون ہیں ان محتاجوں کو دو جو اللہ کی راہ میں علم دینی پڑھنے کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں۔ باوجود حوائج ضروریہ کے دین خدمت کے خاطر ایسے ہو رہے ہیں کہ زمین میں سفر نہیں کرسکتے۔ ناواقف لوگ ان کو نہ مانگنے سے مالدار جانتے ہیں مگر تو اور تیرے جیسا دانا ان کے چہرے سے ان کو پہچان لاتن ہے ہر ایک کا کام نہیں کہ ان کو پہچانے اس لئے کہ وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے پس ایسے لوگوں کی خاطر جہاں تک ہوسکے مقدم سمجھو اور سن رکھو کہ جو مال خرچ کروگے تو اس کا بدلہ ضرور ہی پاؤ گے اس لیے کہ اللہ اس کو پورے طور سے جانتا ہے۔ پس جو لوگ اللہ کے احکام سنتے ہیں ان کی تعمیل کرنے کو شب و روز پوشیدہ اور ظاہر اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کا بدلہ ان کے رب خدا وند عالم کے ہاں موجود ہے جہاں سے نہ ان کو تلف ہونے کا خوف ہے اور نہ ضائع ہونے سے غمناک ہوں گے اس لئے ضائع ہی نہ ہوگا۔ بلکہ کل کا کل محفوظ رہے گا۔ ” شان نزول :۔ پہلی آیت کو سن کر حضرت علی اور عبدالرحمن بن عوف (رض) نے رات کو چھپا کر اللہ کی راہ میں مال خرچ کئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ “ یہ تو ان کا حال ہے جو بغرض تعمیل احکام خدا وندی اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور ان کے مقابل جو لوگ بجائے فیض رسانی کے بوقت ضرورت حاجتمندوں کو قرض دیکر بجائے فیض رسائی کے قرض پر ان سے سود لے کر کھاتے ہیں قیامت میں سخت ذلیل ہوں گے نشانی ان کی یہ ہوگی کہ قبروں سے اٹھتے ہوئے مخبوط الحواسوں کی طرح جنہیں کسی بھوت نے چھوا ہو اہو اٹھیں گے۔ ” شان نزول :۔ عرب کے مال دار لوگ عوام سے بے تحاشا سود لیتے تھے جیسا کہ ہمارے ملک کے ظالم بنئے سو سے ہزار تک نوبت پہنچاتے ہیں اس قسم کی کارروائی عام اخلاق سے بھی مخالف ہے ان کے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ علاوہ اس ممانعت کے امیروں پر غربا پروری کے لئے زکوٰۃ بیل فرض کردی گئی ہے۔ مخالفین اس رحم کو غور سے دیکھیں ١٢ منہ “ یہ بری حالت ان کی اس لئے ہوگی کہ وہ دنیا میں اپنی نفسانی خواہش میں پھنس کر بغرض طیب قلبی کہا کرتے تھے کہ تجارت اور سود ایک سے ہیں حالانکہ ان میں بہت فرق ہے۔ جب ہی تو اللہ نے تجارت کو جائز کیا اور سود کو حرام۔ پس جس کے پاس ہدائیت خداوندی پہنچ گئی اور وہ اس فعل شنیع سود خوری سے باز رہا تو جو کچھ اسے پہلے وصول ہوا اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد چاہے عذاب کرے چاہے چھوڑدے اور جو لوگ بعد سننے نصیحت کے پھر وہی فعل سود خوری کریں گے تو یہی آگ کے لائق ہوں گے۔ جس میں وہ ہمیشہ تک رہیں گے۔ سود خوری تو اس قدر مزموم ہے کہ اللہ سود کو ہمیشہ گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سود خور ایسا ممسک ہوتا ہے کہ کسی سے بلا عوض احسان کرنا نہیں چاہتا اور مثل تن گدستوں کے ہمیشہ منہ تاکتا رہ جاتا ہے گیا وسعت ہی نہیں رکھتا کہ اپنے مال سے کچھ بہرہ ور ہو۔ اور جو صدقات اور احسان کرنے کے خوگیر ہوں ان کے حوصلے فراخ اور بلند خیالات ہوں ہر کار خیر سے وہ حصہ لیں۔ کیا تم نہیں سنا۔ سخیاں زا موال برمیخورن بخیلاں غم سیم وزر میخورند علاوہ اس ذلت اور خواری کے جو سودخوروں کو دنیا میں نصیب ہے اللہ تعالیٰ کی جناب میں ناشکروں کے دفتر میں لکھے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ناشکرے بدکار کسی طرح نہیں بھاتے سچ پوچھو تو ان کا ایمان بھی درست نہیں ورنہ جو لوگ پکے مؤمن ہیں اور عمل بھی نیک کرتے ہیں لوگوں سے احسان بھی کرتے ہیں اور نماز باجماعت وقت پر پڑھتے ہیں اور مالداری کی صورت میں زکوٰۃ بھی دیتے ہیں بے شک ان کا بدلہ ان کے رب خداوند عالم کے ہاں محفوظ ہے نہ ان کو ضائع ہونے کا خوف ہے اور نہ وہ اس کی گم ہونے پر غمناک ہوں گے پس مسلمانو ! تم اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور بقایا سود کا چھوڑ دو اگر تم سچے دل سے مؤمن ہو۔ پھر اگر بعد سننے کے بھی نہ کرو گے اور آئندہ کو سود ہی لیتے رہو گے تو اللہ اور رسول کی لڑائی کے لئے خبردار ہوجاؤ اس لئے کہ باوجود تاکید شدید کے نہ ماننا گویا مقابلہ کرنا ہے پس جب تمہاری یہ حالت ہے تو اللہ تعالیٰ بھی تم سے اسی کے مناسب معاملہ کرے گا۔ اور اگر باز آؤ تو تمہارے اصلی مال تم کو مل جائیں گے نہ کسی پر ظلم کرو۔ نہ تم پر ظلم ہوگا۔ ” شان نزول :۔ حضرت عباس اور عثمان (رض) نے کسی کسان سے کچھ معاملہ کیا تھا۔ جب کھیتی کٹنے کا وقت آیا تو کسان بولا کہ اگر تم اپنا سارا حق لے لو گے تو میرے کھانے کو بھی کچھ نہ رہے گا نصف لے لو اور نصف کے بدلے آئندہ کو میں تمہیں دگنا دوں گا۔ جب دوسرا موسم آیا اور انہوں نے جب وعدہ زیادہ چاہا تو یہ معاملہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت شریف میں پہنچا۔ تا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان دونوں بزرگوں نے سنتے ہی اس حکم کی تعمیل کی ١٢ م بیشک بڑوں کی بڑی باتیں ہیں ١٢ منہ “ اپنے حقوق اصلی بیشک پورے لوہاں لینے میں ایسی تنگی نہ کرو کہ خواہ مخواہ اس کے گلے پر چھری رکھ دو۔ نہیں آرام سے لو اور اگر (مقروض) تنگدست ہے تو فراخٰ تک اس کو ڈھیل دینا چاہئے۔ اور اگر بالکل معافی کے قابل ہو تو معاف کرنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر جانتے ہو تو ایسا ہی کرو اور حیلے کرتے ہوئے اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف پھر و گے پھر ہر ایک جان کو اس کی مزدوری پوری ملے گی اور ان کا کسی طرح سے نقصان نہ ہوگا اسی ظلم سے بچانے کو ہم اعلان دیتے ہیں کہ مسلمانو ! جب تم ایک مدت مقررہ تک قرض پر معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔ آپ ہی نہ لکھو بلکہ کوئی کہنے والا تم میں انصاف سے لکھے اور لکھنے والا حیلے بہانہ سے رکے نہیں۔ کہ میرا خط اچھا نہیں ۔ یا مجھے کچھ کام ہے جیسا اللہ نے اس کو سکھایا ہے لکھنے سے انکار نہ کرے پس یہ سمجھ کر کہ اللہ نے مجھ کو محض اپنی مہربانی سے سکھایا ہے ضرور لکھے اور جس پر قرض ہے وہ بیان کرتاجائے اور بتلاتا ہوا اللہ سے ڈرے جو اس کا رب اور کارساز ہے اور اس کے حق میں سے کوئی چیز کم نہ کرے ہاں اگر مقروض ناسمجھ ہو کہ جانتاہی نہیں کہ سو اور پچاس میں کیا فرق ہے۔ یا بہت ہی بوڑھایا ناتواں ہے یا کسی مانع سے بتلا نہیں سکتا۔ تو ان سب صورتوں میں اس کا متولی انصاف سے بتلاتاجائے اور بعد تحریر کاغذ دو مردوں کو گواہ بنایا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں جو بوجہ دینداری کے تمہاری پسندیدہ گواہوں سے ہوں۔ مقرر کرو۔ تاکہ ایک کے بھولتے وقت دوسری اسے یاددلا دے اس لئے کہ عورتوں میں عموماً نسیان غالب اور حافظہ مغلوب ہوتا ہے اور مقرر کدہ گواہ بلاتے وقت انکار نہ کریں اور مدت مقررہ تک لکھنے میں سستی نہ کیا کرو چھوٹا ہو خواہ بڑا۔ یہ لکھنا اللہ کے ہاں بہت انصاف کی بات ہے اور بڑا مضبوط ذریعہ شہادت یاد رکھنے کا ہے اور اس سے امید ہے کہ تم بروقت ادائے شہادت شک میں نہ پڑو گے۔ ہاں جبکہ معاملہ دست بدست ہو جس کو اسی وقت ہاتھ بہ ہاتھ لیتے دیتے ہو تو اس کے نہ لکھنے میں تمہیں گناہ نہیں۔ اور خاص خاص صورتوں میں خریدو فروخت کرتے ہوئے گواہ مقرر کرلیا کرو سنو ! اس قسم کے معاملات میں نہ محرر کو نقصان پہنچا یا جائے اور نہ گواہ کو کہ خواہ مخواہ موقع بے موقع ان کو کھینچتے پھر و جس سے ان کا نقصان ہو اور اگر اس کام میں اس کا قدرے نقصان ہو تو اس کا ان کو عوض دیا کرو اگر ایسا کروگے یعنی محرر اور کاتب کا نقصان کروگے اور ان کا ہر جانہ ان کو نہ دوگے تو یہ تمہارے حق میں گناہ کی بات ہوگی ایسا مت کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے اور تمہارے بھلے کی باتیں تم کو سکھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بعد سکھانے کے غافل اور بے خبر نہیں بلکہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ ” شان نزول :۔ معاملہ صفا رکھنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ ١٢ منہ “ اور اگر تم سفر میں ہو اور محرر نہ پاؤ تو اپنی کوئی چیز قرض خواہ کے ہاتھ میں بغیر سود گرو دیدیا کرو ہاں اگر کوئی شخص کسی کو معتبر جانے اور اس سے کوئی چیز گرو نہ لے تو وہ معتبر اپنے قرضہ کو ضرورادا کر دے اور اس کی حق تلفی میں اللہ سے ڈرے جو اس کا مالک ہے اگر کسی قسم کی بددیانتی کرے گا تو گویا اپنے مالک سے بگاڑے گا جس کا نتیجہ اس کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں گواہ ہو تو گواہی نہ چھپاؤ جو کوئی اس کو چھپائے گا خواہ کسی غرض سے چھپاوے تو جان لو کہ اس کا دل بگڑا ہوا ہے اس کی سزا پائے گا۔ کیونکہ اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے اس کا علم نہایت وسیع ہے اس لئے کہ اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں ! اور زمینوں میں ہے جبکہ ملک اتنا وسیع ہے تو علم بھی وسیع کیوں نہ ہو پس تم یہ سمجھ کر کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے ظاہر وباطن گنا چھوڑ دو اور اگر تم اپنے جی کی بات ظاہر ہو کر کرو گے یا پوشیدہ اس کو کرو گے تو ہر حال میں اللہ تم سے اس کا حساب لے گا پھر جس کو چاہے گا بخشے گا اور جس کو چاہے گا عذاب کرے گا۔ نہ ہوگا کہ کسی قوی اور زبردست سے دب جائے کیونکہ اس سے تو کوئی زبردست ہی نہیں۔ اس لئے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے جیسا کہ اللہ اپنی صفات خداوندی میں کامل اور یکتا ہے اسی طرح بعض بندے بھی اپنی صفات بندگی میں کامل ہیں جو حکم ان کو پہنچے خواہ ان کی طبیعت کے مخالف ہو یا موافق سب کو تسلیم کرتے ہیں ” شان نزول :۔ معاملہ سابقہ کی تاکید کرنے کو کہ انصاف سے کرو اور کسی کی جانبداری نہ کرو۔ یہ آیت نازل ہوئی۔ (منہ) “