سورة الأنبياء - آیت 78

وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو یاد کیجئے جبکہ وہ کھیت کے معاملہ میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چر گئی تھیں، اور ان کے فیصلے میں ہم موجود تھے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(78۔104) اور حضرت دائود اور سلیمان کا واقعہ بھی ان کو سنا جس وقت وہ دونوں کسی کی کھیتی کے بارے میں فیصلہ کرتے تھے جب کسی قوم کی بھیڑ بکریاں اس کھیتی میں رات کے وقت کود پڑیں اور سب کھیت کو کھا گئیں دونوں باپ بیٹا اس مقدمہ کو سوچ رہے تھے اور ہم ان کے فیصلے کے وقت وہاں حاضر تھے یعنی ملاحظہ کر رہے تھے کہ کس طرح سے فیصلہ کرتے ہیں چونکہ ایسی نزاع کے متعلق احکام شرعیہ میں کوئی صریح حکم نہ تھا بلکہ اجتہادی مسئلہ تھا اس لئے بحکم المجتہد قد یصیب وقد یخطی حضرت دائود سے غلطی ہوگئی پھر ہم (اللہ) نے یہ مقدمہ سلیمان کو جو اس وقت شاہزادہ تھا سمجھا دیا چناچہ سلیمان نے اپنے والد حضرت دائود (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ میری رائے میں حضور کا فیصلہ قابل نظر ثانی ہے (اس قصے کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) سے یوں روایت آئی ہے کہ دو آدمی حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس آئے ایک نے دوسرے پر دعویٰ کیا کہ اس کی بکریوں نے رات کے وقت میرا تمام کھیت کھالیا حضرت دائود نے تمام بکریاں کھیت والے کو دلوا دیں جب وہ دونوں باہر آئے تو حضرت سلیمان سے ملے۔ انہوں نے پوچھا کیا فیصلہ ہوا۔ انہوں نے سنایا تو حضرت سلیمان نے (جو ان دنوں شہزادگی میں تھے) کہا اگر یہ مقدمہ میرے پاس آتا تو میں اس کو ایسے آسان طریق سے طے کرتا کہ فریقین کے حق میں مفید ہوتا۔ اس کی خبر حضرت دائود کو بھی ہوگئی انہوں نے صاحبزادہ کو بلا کر وہ آسان طریق دریافت کیا تو صاحبزادہ نے کہا کہ کھیت کی زمین بکریاں والے کو دی جائے کہ وہ اس میں زراعت کرے اور بکریاں کھیت والے کو دی جائیں کہ وہ کھیت کے تیار ہونے تک ان کا دودھ پئے۔ پھر جب کھیت تیار ہوجائے تو کھیت والے کو کھیت اور بکریاں والے کو بکریاں دی جائیں حضرت دائود نے بھی اس فیصلے کو پسند کیا اور یہی نافذ فرمایا۔ بموجب روایات حدیثیہ اسلام کا مسئلہ ہے کہ دن کو کھیت کی حفاظت کرنی مالک کے ذمہ ہے اور گلہ کی حفاظت رات کے وقت گلہ کے مالک پر ہے پس اگر کسی کے مویشی دن کو کسی کا کھیت چر جائیں تو مالک مویشی پر کچھ نہیں کیونکہ دن کو حفاظت کرنا مالک زراعت کا فرض ہے اور اگر رات کو کھیت چر جائیں تو مالک مویشی پر اس کھیت کی قیمت واجب الادا ہوگی کیونکہ رات کے وقت مویشیوں کی حفاظت کرنی مالک مویشی کا فرض ہے۔ (منہ) والد بزرگوار نے کمال انصاف سے اس پر غور کیا تو صاحبزادہ کو حق بجانب پا کر اس سے موافقت کی۔ اس سے تم دو نتیجے حاصل کرو ایک تو یہ کہ بڑوں کی ہر بات میں پیروی نہیں ہوتی جس بات کی غلطی واضح ہوجائے اس میں بڑوں کو بھی مطلع کردینا چاہئے نہ کہ ہر بات میں ان کی اقتداء دویم یہ کہ بڑوں کو بھی چاہئے کہ اپنی بڑائی حق پسندی سے ظاہر کریں نہ بے جا حکم سے چھوٹوں کی بات کو حقارت سے رد کردیں کہ اس بات کا قائل خورد سال ہے۔ دانائوں کا مقولہ ہے بزرگی بعقل است نہ بسال تونگری بدل است نہ بمال افسوس ہے آجکل دنیا میں عموما اور تم عربیوں میں خصوصا یہ دونوں وصف معدوم ہیں کہیں تو تم دین اسلام کی تعیمی کے مقابلہ پر بڑوں کی لکیر کو پیٹتے ہوئے ما وجد نا علیہ ابائنا کہا کرتے ہو کہیں بڑی عمر کے بڈھے پیغمبر اللہ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے سے خورد سال جان کر اس کی تعلیم ناک بھون چڑھاتے ہو کہ کل کا لڑکا ہے کیا ہم اس کی پیروی کریں؟ بعض اس خیال سے کہ پیغمبر اللہ کے پاس مال و دولت کی کمی ہے اتباع کرنے سے غرور کرتے ہیں اس قسم کے خیالات سب واہیات ہیں اور ہم نے ہر ایک یعنی دائود اور سلیمان کو حکم اور نبوت کا علم دیا تھا مگر آخر (ع) اللہ پنچ انگشت یکساں نکرد ہم نے دائود پر خاص مہربانی یہ کی تھی کہ اس کے ساتھ پہاڑوں اور جانوروں کو مسخر کیا تھا ایسے کہ وہ پہاڑ اور جانور اس کی تسبیح کے ساتھ تسبیح پڑھتے تھے اور ذکر کے ساتھ ذکر کرتے تھے اس بات سے تم تعجب نہ کرو بے شک ہم (اللہ) ایسے کام کرسکتے ہیں ہم قادر مطلق ہیں کوئی کام ہمارے پر مشکل نہیں اس کی مثال سننا چاہتے ہو تو شیخ سعدی مرحوم کا کلام سنو تو ہم گردن از حکم داور مپیچ کہ گردن نہ پیچدز حکم تو ہیچ اور سنو ! ہم نے اس پر یہی احسان نہیں کیا بلکہ اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک قسم کے احسان کئے خصوصا ایسے احسان جو سلطنت سے تعلق رکھتے تھے مثلا ہم نے اس کو تمہارے لئے جنگی لباس بنانا سکھایا لوہے کو نرم کردیا۔ دائود سلام اللہ علیہ لوہے کی ذرہ بناتے تھے تاکہ تم اس وقت کے لوگوں کو جنگ کے ضرر سے بچائے۔ کیا تم ایسی نعمتوں کا بھی شکر نہ کرو گے؟ اور سنو ! ہم نے تیز ہوا کو سلیمان کے تابع کردیا تھا وہ اس کے حکم اور تدبیر سے اس زمین کی طرف جاتی تھی جس میں ہم نے ہر قسم کی برکتیں پیدا کی ہیں یعنی ملک شام کا علاقہ اور ہم ہر ایک چیز کو جانتے ہیں کوئی چیز ہمارے حکم اور علم کے احاطہ سے باہر نہیں ہوسکتی اور شیطانوں یعنی شریر جنوں میں سے جو سمندر میں غوطہ لگاتے تھے اور اس کے سوا کئی ایک اور کام بھی کرتے تھے ہم نے اس کے تابع کر دئیے تھے اور ہم ان کے نگران تھے کہ سرکشی نہ کریں یہ سب کرشمات قدرت ظاہر بینوں کی نگاہ میں گونا قابل وقوع ہیں لیکن دور بینوں کی نظروں میں اللہ کی قدرت کے سب ماتحت ہیں یہی وجہ ہے کہ سلسلہ رسالت میں ایسے امور کا وقوع عموما مانا گیا ہے پس ان کو حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ذکر بھی سنا جب اس نے اپنے پروردگار رب العالمین سے دعا کی کہ الٰہی ! میں سخت مصیبت میں ہوں مجھے از حد تکلیف پہنچی ہے کہ تمام بدن پر بیماری غلبہ کرگئی ہے اور تو سب رحم کرنیوالوں سے بڑا رحم کرنے والا ہے پس اس دعا کا یہ آثر ہوا کہ اس مخلص بندہ کی پکار کو ہم نے قبول کیا اور جو اس کو تکلیف تھی سب دور کردی اور اس کو اس کا عیال جو بوجہ جدائی کے یا مر جانے کے جدا ہوگیا تھا دیا اور محض اپنی مہربانی سے اور عابد زاہد متوکل لوگوں کی نصیحت کے لئے ان کے ساتھ اور بھی دئیے یعنی ان کی نسل میں برکت کی تاکہ متوکل سمجھیں کہ اللہ کسی کی محنت اور دعا کو ضائع نہیں کیا کرتا اور حضرت اسمعیل ادریس اور ذوالکفل نبی کا ذکر بھی ان کو سنا کہ وہ تمام صابروں کی جماعت سے تھے مصیبت کے وقت چلاتے نہ تھے خوشی پر اتراتے نہ تھے ہم (اللہ) نے ان کو برگذیدہ بنایا اور اپنی رحمت میں داخل کیا تحقیق وہ نیکوں کی جماعت سے تھے اسی لئے ان کا حال بھی تم کو سنا یا جاتا ہے کہ تم بھی ان کی پیروی کرو اسی طرح حضرت یونس مچھلی والے کا ذکر ان کو سنا جب وہ قوم کی سرکشی پر خفا ہو کر وطن سے چلا گیا اور سمجھا تھا کہ ہم اس کے اس نکلنے پر سخت گیری نہ کریں گے کیونکہ بروں کی صحبت میں رہنے سے عموما ممانعت ہے اس عام حکم سے اس نے از خود یہ نتیجہ نکالا کہ بغیر صریح اجازت کے چلا جانا موجب عتاب نہ ہوگا مگر چونکہ نبی کیلئے جب تک بالخصوص حکم نہ پہنچے قوم کو چھوڑ کر ہجرت کرنا ٹھیک نہیں ہوتا اس لئے وہ مچھلی کے پیٹ میں پھنس گیا تو پھر اس نے مچھلی کے پیٹ اور پانی اور بادلوں کے ان گنت اندھیروں میں ہم کو پکارا کہ اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہی سب کا معبود مطلق ہے جو کچھ میرے پیش آیا ہے سب میری ہی شامت اعمال ہے ورنہ اللہ ! تو کسی بندے پر ناحق ظلم کرنے سے پاک ہے بے شک میں ہی ظالم اور ظالموں میں سے بڑا فرد قابل سزا ہوں کچھ تو یہ دعا ہی پر مضمون تھی جو سب مطالب کو شامل تھی اس پر حضرت یونس کے اعلیٰ درجہ کے اخلاص نے اور ہی اثر کیا پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو اس غم وہم سے جو مچھلی کے پیٹ میں پھنس جانے سے اس پر وارد ہوا تھا نجات بخشی اور اسی طرح ہم اس دعا کی برکت اور تاثیر سے ہمیشہ ایمانداروں کو ایسے غموں سے نجات دیتے ہیں اور حضرت زکریا کا ذکر بھی ان کو سنا جب اس نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ اے میرے روردگار تو مجھے اکیلا بے اولاد نہ چھوڑ بلکہ کوئی لائق بیٹا مرحمت کر جو دین کا خادم ہو اور یوں تو میں جانتا ہوں کہ تو سب وارثوں سے اچھا وارث دین کا وارث بھی تو ہی ہے اور دنیا کا بھی تو ہی لیکن آخر دنیا میں تو اپنے بندوں ہی سے کام لیا کرتا ہے میرے حال پر مہربانی کر کے ایک لڑکا عنایت فرما پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو یحییٰ نام کا ایک بیٹا بخشا اور اس کی عورت کو جو بانجھ تھی درست کردیا یعنی قابل اولاد بنا دیا۔ ان بڑے لوگوں میں یہ تو کوئی بات نہ تھی جیسا بعض بیوقوفوں کا خیال ہے کہ ان کو کسی الٰہی کام میں بھی دخل تھا ہرگز نہیں ہاں اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اور آڑے کاموں میں توقع اور خوف سے ہم ہی کو پکارتے تھے اور ہم (اللہ) ہی سے ڈرتے تھے ان کے علاوہ اور بھی کئی ایک اللہ کے بندے نیک دل گذرے ہیں جن سے مخلوق کو ہدایت ہوتی تھی مردوں کے علاوہ اس عورت (صدیقہ مریم) کا ذکر بھی ان کو سنا جس کو ناپاک لوگ (یہودی) مطعون کرتے ہیں حالانکہ اس نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تھا پھر ہم نے اس مریم میں اپنی طرف سے ایک روح پھونکی تھی (عیسائی لوگ اس آیت اور اس قسم کی اور آیات سے عموماً دلیل لایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (معاذ اللہ) اللہ تھا۔ کیونکہ اس کو روح اللہ کہا گیا ہے مگر قرآن شریف کے محاورے کو غور سے نہیں دیکھتے کہ اس قسم کی اضافات سے مطلب کیا ہوتا ہے۔ سورۃ سجدہ میں عام انسانوں کے لئے بھی یہی اضافت روح کی اللہ کی طرف آئی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے بدع خلق الانسان من طین ثم جعل نسلہ من سلا لۃ من مآء مھین ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس کے سلسلہ کو نطفہ سے جاری کیا۔ پھر اس کو درست اندام بنایا۔ پھر اس میں اپنی روح پھونکی۔ اس جگہ عام انسانی پیدائش کی ابتدا اور سلسلہ کا ذکر ہے پس اگر آیت زیر تفسیر سے مسیح کی الوہیت ثابت ہوتی ہو تو اس قسم کی آیات سے تمام انسانوں کو اُلُوہیت ثابت ہوگی پھر اگر مسیح بھی ایسے ہی اللہ اور الہ ہیں۔ جیسے کہ سب انسان ہیں تو خیر اس کے ماننے کو کلام میں کسی نہیں۔ پس آیت موصوفہ کے معنی وہی ہیں جو ہم نے لکھے ہیں۔ فافہم (منہ) جس سے اس کا بیٹا مسیح سلام اللہ علیہ پیدا ہوا اور ہم (اللہ) نے اس کو اور اس کے بیٹے مسیح کو اس دنیا کے تمام لوگوں کے لئے بہت بڑا نشان بنایا تھا کیونکہ اس کی ولادت بغرا باپ کے ہوئی تھی جو عموما سلسلہ تناسل ہی آدم کے خلاف تھی مگر خیر اصل بات جس کے لئے یہ سب واقعات تم لوگوں کو بتلائے گئے ہیں یہ ہے کہ یہ انبیاء کا گروہ تمہارا ایک ہی گروہ ہے ایک ہی ان کی بات تھی یعنی تم تمام لوگ میرے (اللہ کے) بندے ہو اور میں (اللہ) تمہارا پروردگار ہوں پس تم میری ہی عبادت کیا کرو اور مراد پاجائو مگر افسوس ہے کہ تمہاری نسبت تو کیا کہنا ہے خود انہی کو دیکھو جن میں یہ نبی آئے تھے انہوں نے کیا کیا انبیاء کی بے فرمانی کی اور آپس کے تعلقات بھی توڑ دئیے۔ پس جو لوگ ایمان لاتے خواہ ان کے کیسے ہی عزیز و اقارب کیوں نہ ہوتے وہ ان کے بھی دشمن جان ہوجاتے خیر سب نے ہماری ہی طرف پھر کر آنا ہے بس وہاں تو صاف ہی فصلہ ہوگا کہ جس کسی نے ایمانداری کے ساتھ نیک کام کئے ہوں گے ان کی کوشش کی بے قدری نہ ہوگی اور ہم (اللہ) خود اس کے اعمال کو لکھنے والے ہیں یعنی محفوظ رکھ کر نیک جزا دیں گے مگر ان نادانوں کے دل و دماغ میں عجب خبط سمایا ہوا ہے کہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مر گئے سو گئے یہ نہیں جانتے کہ جس بستی کے لوگوں کو ہم (اللہ) ہلاک کرتے ہیں یعنی مار دیتے ہیں ممکن نہیں کہ وہ ہماری طرف پھر کر نہ آئیں پھر جب یاجوج ماجوج کی روک کھول دی جائے گی اور وہ ہر ایک بلندی سے ڈھلکتے ہوئے چلے آئیں گے اس وقت آثار قیامت ظاہر ہوں گے اور سچا وعدہ قیام قیامت قریب آجائے گا تو اس کے آجانے پر کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کہتے ہوں گے ہائے ہماری کمبختی ہم اس تکلیف شدید سے بالکل بے خبر تھے۔ بلکہ سراسر ظلم کرتے رہے آج یہ کیا ماجریٰ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے اس کلام کی سچائی دیکھ رہے ہیں جو ہم کو دنیا میں سنایا گیا تھا جس پر ہم کو سخت طیش آتا تھا جب مسلمان کہتے تھے کہ تم اور تمہارے معبود جن کی تم اللہ کے سواعبادت کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہو یہ بھی کہتے تھے کہ تم لوگ اس میں داخل ہو گے یہ بھی ہم ان سے سنتے تھے کہ اگر یہ لوگ تمہارے معبود جن کو تم آج جہنم میں داخل دیکھتے ہو سچے معبود ہوتے تو دوزخ میں نہ جاتے حالانکہ عابد اور معبود سب کے سب اس میں نہ صرف داخل ہوں گے بلکہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اس میں ان کو کسی طرح کا آرام نہ ہوگا۔ کیونکہ وہاں کا عام قاعدہ ہے کہ جو لوگ اس میں داخل ہونگے وہ تکلیف کے مارے سخت چلائیں گے اور اس چلاہٹ میں کسی کی نہ سنیں گے بلکہ اپنا ہی دکھڑاروئیں گے کہ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ ان مصنوعی معبودوں میں نیک کرادار ہیں یعنی جن کے حق میں ان کے اعمال صالحہ کی وجہ ہماری طرف سے نیک وعدہ گذر چکا ہے کیونکہ وہ نہ تو خود ہی شرک کی تعلیم دے گئے نہ اپنی عبادت کرانے پر وہ راضی تھے بلکہ لوگوں نے خواہ مخواہ ان کو یہ رتبہ دے رکھا ہے جیسے حضرت مسح (علیہ السلام) اور شیخ عبدالقادر جیلانی اس آیت کو مرزا صاحب قادیانی نے اپنے معمولی زور اور لفاظی سے حضرت مسیح کے عدم رجوع پر دلیل سمجھا ہے کہتے ہیں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو موت آگئی دنیا کی طرف ان کا رجوع حرام ہے۔ حالانکہ ان معنے سے آیت میں لا کے معنے کچھ نہیں بنتے۔ ہم نے جو معنے کئے ہیں وہ لفظی اور صرفی نحوی قاعدے سے ٹھیک ہیں حرام کے معنے ناممکن کے ہیں لایرجعون کے معنے نہ پھریں گے پس ہمارے معنے صحیح ہیں اور مرزا صاحب کے معنے غلط۔ (منہ) رحمہ اللہ وغیرہ یہ لوگ اس دوزخ اور دوزخ کی جملہ تکالیف سے دور ہٹے رہیں گے ایسے کہ اس کی بھنک بھی ان کے کانوں میں نہ پڑے گی بلکہ وہ اپنی من بھاتی خواہشوں اور لذتوں میں ہمیشہ رہیں گے ان کو قیامت کی بڑی گھبراہٹ پریشان نہ کرے گی اور ان کی ملاقات کو فرشتے یہ کہتے ہوئے آویں گے کہ یہی وہ دن ہے جس کا آپ لوگوں کو وعدہ دیا جاتا تھا یہ کب ہوگا؟ جس روز ہم (اللہ) تمام آسمانوں کو لپیٹ لیں گے ایسا کہ جس طرح مکتوبات جمع کر کے لپیٹے جاتے ہیں یعنی تمام دنیا پر اس روز حکومت الٰہی ایسی ہوگی کہ کوئی ایک فرد بھی دعویدار حکومت نہ ہوگا جیسا ہم نے پہلے مخلوق کو پیدا کیا تھا اسی طرح ان کو دوبارہ وجود میں لوٹائیں گے یہ وعدہ ہمارے ذمہ ہے بے شک ہم کرنے والے ہیں اس لئے ہم نے اس بات کی اطلاع بندوں کو دے رکھی ہے