سورة الأنبياء - آیت 1

اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا (١) پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ٢)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔3) افسوس لوگوں کا حساب قریب آگیا ہے یعنی موت سر پر کھڑی ہے اور وہ غفلت میں آخرت کی زندگی سے منہ پھیرے ہوئے ہیں حالانکہ چاروں طرف سے ایک زور دار آواز آرہی ہے کہ لوگوں ہوشیار ہوجائو ؎ یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے مگر یہ عرب کے لوگ تو بالخصوص ایسے کچھ سرشار ہیں کہ جونسی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس آتی ہے جس میں سرا سرا انہی کی بہتری اور بھلائی منظور ہوتی ہے اس ہنسی کھیل میں سنتے ہیں کیونکہ دل ان کے لہو و لعب میں لگے ہوئے ہیں مطلق توجہ نہیں دیتے کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے اور ظالم چپکے چپکے آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ مدعی نبوت صرف تمہاری طرح کا ایک آدمی ہے نہ اس کو لڑکے لڑکیاں دینے کی قدرت ہے نہ دکھ درد ہٹانے کی ہمت کیا تم دیدہ دانستہ ایک مسحور یعنی مجنون کے پاس جاتے ہو؟ جو کہ دماغی طور پر ہوشیار مگر تعلیمی حیثیت سے گویا مسحور ہے اس سے کیا لوگے وہ ایسا جنونی ہے کہ تم بھی جنونی کر دے گا بلکہ کر ہی دیا ہے بقول بسان سرمہ سیاہ کردہ خانہ مردم دو چشم تو کہ سیاہند سرمہ نا کردہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کلام کے جواب میں کہا میرا پروردگار آسمانوں اور زمینوں کے بیچ کی باتیں سب جانتا ہے اس سے کوئی بات چھپی نہیں اور وہ بڑا سننے والا جاننے والا ہے ہر ایک قول و کردار کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ یہ ظالم ایسی صاف تعلیم کو مانتے نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو پریشان خیالات کا مجموعہ ہے بلکہ سراسر افترا ہے افترا بھی کیا بلکہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر ہے یعنی شاعروں کی طرح نت نئے خیالات سناتا ہے کلام تو اس کا نظم نہیں مگر خیالات شاعرانہ ہیں ہوائی قلعے بناتا ہے کبھی جنت کا نقشہ دکھاتا ہے کبھی دوزخ سے ڈراتا ہے پس ہمارے پاس کوئی نشان لاوے جیسے پہلے لوگ موسیٰ عیسیٰ وغیرہ سلام اللہ علیہم نشانوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے یہ لوگ پہلوں کی مثال تو دیتے ہیں اور بس کرتے ہیں مگر یہ تو بتلا دیں کہ ان سے پہلے جس بستی کو ہم نے تباہ کیا وہ بھی اسی طرح نشان مانگا کرتے تھے پھر بعد دیکھنے کے بھی ایمان نہ لائے؟ تو کیا یہ لوگ ایمان لے آویں گے کون سا امر یقین دلا سکتا ہے کہ یہ مان جائیں گے جس قسم کے شبہات یہ لوگ کر رہے ہیں ان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو حق جوئی سے غرض نہیں بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے کہ اللہ کے رسول آدم زاد نہیں ہونے چاہئیں حالانکہ ہم نے جتنے رسول بھیجے ہیں سب سب کے سب آدم زاد مرد ہی بھیجے ہیں ان کی طرف ہم وحی اور الہام کرتے رہے ہیں پس اگر تم کو معلوم نہیں تو تم ان کتاب والوں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں سے پوچھ لو یہ لوگ یہودی اور عیسائی تو ہمارے مخالف ہیں تاہم ان سے پوچھ کر معلوم کرلو کہ یہ کیا کہتے ہیں پھر ہمارے کلام کی صداقت مانو علیٰ ہذا لقیاس یہ ان کا خیال جو اللہ کا رسول ہو وہ کھانا نہ کھائے پانی نہ پئے آپ سے آپ زندہ رہے غلط ہے حالانکہ ہم نے ان رسولوں کو جن کو ہم نے پہلے زمانے میں بغرض تبلیغ احکام بھیجا تھا ایسے جسم نہ بنایا تھا کہ کھانانہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے پھر ان میں جو باتیں منافی رسالت نہ تھیں اس رسول میں کیونکر ہوئیں منافی رسالت تو نہیں البتہ منافی الوہیت ہیں سو وہ بندے مخلوق تھے نہ خالق معبود ہمارے تابع فرمان تھے ہم نے رسولوں کو آدم زاد صفات کے ساتھ وعدے دے کر دنیا میں بھیجا تھا پھر ہم نے ان سے اپنے وعدے سچے کئے کہ ان کو اور جن کو ہم نے موافق اپنے قانون شریعت کے چاہا بچا لیا اور بیہودہ گوئوں یعنی حد سے تجاوز کرنے والوں کو ہلاک کردیا اسی طرح یہ رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں آیا اور ہم نے اس کے ساتھ تمہاری طرف ایک جامع اور صاف کتاب بھیجی جس میں تمہاری نصیحت کی بات ہے کیا پھر بھی تم عقل نہیں کرتے اور سنو ! اگر اگڑ تگڑ کرو گے اور نہ مانو گے تو ہمارے پاس دوسرا طریق بھی ہے جس سے ہم آخری علاج کیا کرتے ہیں اسی سے ہم نے کئی ایک ظالم بستیوں کو تباہ کیا اور ان سے بعد دوسری کئی ایک اور قومیں پیدا کیں جب انہوں نے ہمارا عذاب محسوس کیا یعنی ان کی بستیوں میں کوئی آسمانی بلا مثل طاعون وغیرہ کے آئی تو لگے ان بستیوں سے بھاگنے مگر کہاں جاسکتے تھے ان سے کہا گیا مت بھاگو اور انہی نعمتوں کی طرف جن میں تم تھے اور اپنے مکانات کی طرف لوٹ جائو تاکہ تم سے سوال ہو مثل سابق غریب لوگ تم سے سوال کریں یہ بات ان کو کسی ناصح مشفق کی طرف سے کہی گئی جو ان کو ہمیشہ اللہ ترسی اور نیک کاموں کی طرف بلاتے تھے مگر وہ باز نہ آتے تھے بلکہ اپنے تمول اور ریاست کا دبائو ان پر ڈالتے آخر جب ان کی ہلاکت کا وقت آیا اور سخت بلا میں مبتلا ہوئے تو ان ناصحوں نے بھی ان کو چلتے چلتے یہ بات کہہ دی مگر وہ ایسے وقت میں بجز اس کے کیا کہہ سکتے تھے جو انہوں نے کہا کہ ہائے ہماری کمبختی ہم تو بڑے ہی ظالم تھے کہ اللہ کے حکموں کی ذرہ بھر پروانہ کرتے تھے پھر ایسے تنگ اور تکلیف دہ وقت میں اور کیا کرسکتے تھے پس یہی پکار ان کی آخر تک رہی یہاں تک کہ ہم نے ان کو بالکل برباد کردیا ایسا کہ سب کے سب مر مٹ گئے مگر افسوس وہ مرنے والے تو مر مٹ گئے ان کی طرف دیکھ کر ان عرب کے زندوں کو کوئی عبرت حاصل نہیں ہوئی اور ابھی تک اس نتیجہ پر نہیں پہنچے کہ ہم نے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں کھیلتے ہوئے نہیں پیدا کیں کہ ان کا نتیجہ کچھ نہ نہ ہو۔ محض بچوں کے کھیل کی طرح یعنی بنایا اور گرایا فقط معمولی چند منٹوں کا شغل ہی مقصود ہو نہیں نہیں ہرگز نہیں اگر ہم کو کھیل بنانے کا خیال ہوتا تو ہم اپنے پاس سے کوئی کھیل بنا لیتے مگر ہم ایسا فضول اور لغو کام کرنے والے نہیں ہیں ہماری حکمت بالغہ ایسی فضول اور بے مطلب کھیل کے کرنے سے ہمیں مانع ہے بلکہ ہم تو سچ کو پتھر کی طرح جھوٹ پر ڈالتے ہیں پھر اس کو کچل ڈالتا ہے پس وہ جھوٹ اسی دم ملیا میٹ اور تباہ ہوجاتا ہے تم اے مشرکو ! ہاتھ ہی ملتے رہ جائو گے اور تمہارے لئے تمہارے ہی بیان سے جو تم زبانی کر رہے ہو افسوس ہے تم دیکھو گے کیا کچھ تمہارے لئے گل کھلیں گے تم یہ نہیں سمجھتے کہ کس احکم الحاکمین سے تم بگاڑ کر رہے ہو اور کس سے الجھتے ہو سنو ! جو آسمانوں میں فرشتے وغیرہ ہیں اور جو زمین میں حیوانات نباتات اجسام اور اعراض وغیرہ ہے وہ سب کے سب اسی اللہ کی ملک ہے وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو رکھتا ہے جتنی مدت چاہتا ہے موجود رکھتا ہے جب چاہتا ہے گرا دیتا ہے اور جو لوگ اس کے حضور میں ہیں یعنی انبیاء صلحا اور ملائکہ غرض جو اس کے ہو رہے ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں اور شب و روز اسکی تسبیحیں پڑھتے ہیں کبی سستی نہیں کرتے ان کے دلوں پر توحید نے ایسا اثر کر رکھا ہے کہ ممکن نہیں اس کے مقابلہ پر وہ کسی مخلوق کی طرف گردن جھکائیں کیا ان لوگوں کو بھی ان بزرگوں کی محبت کا دعویٰ ہے حالانکہ انہوں نے جو تیرے ارد گرد رہتے ہیں اور تجھ سے بوجہ تعلیم توحید کے سخت مخالف ہو رہے ہیں باوجود دعویٰ کرنے اتباع صلحا کے زمین کی چیزوں میں سے معبود بنا رکھے ہیں آدمی ہوں یا بت درخت ہوں یا پہاڑ ایسی چیزوں کو معبود رکھا ہے بڑی شرم کی بات ہے کیا وہ ان کو دنیا میں موجود کر کے پھیلاتے ہیں یعنی ان کی پیدائش ان کے حکم سے ہے ہرگز نہیں سنو ! اگر ان دونوں آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں بسبب بد انتظامی کے مدت سے برباد ہوچکے ہوتے کیونکہ ایک ملک میں دو مستقل بادشاہوں کا راج ممکن نہیں اگر یہ خیال ہو کہ باہمی صلح سے رہتے تو یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ صلح دو حال سے خالی نہیں ہوتی یا تو دونوں میں سے ایک زور آور اور دوسرا کمزور ہوتا ہے جیسے سرکار انگریزی اور ہندوستان کے والیان ریاست نوابان و راجگان یا دونوں پر کسی اور تیسرے کا دبائو ہوتا ہے یا اپنے فوائد کا خیال ہوتا ہے جیسے یورپ کی سلطنتیں پہلی صورت میں تو صاف بات ہے کہ جو کمزور ہو کر زور آور کا دبیل اور ہیٹی ہوگا وہ معبود بننے کے قابل نہیں ہوگا۔ کیونکہ معبود کی ذات اس کے مخالف ہے کہ کسی دوسرے کی ماتحت ہو۔ دوسری صورت میں بھی وہ اپنی حاجات میں محتاج الی الخیر ہونے یا کسی تیسرے کے دبائو سے دبنے کی وجہ سے معبود نہ ہوں گے حالانکہ معبود وہی ہے جو کسی کا دبیل نہ ہو پس اگر سچے اور واقعی لائق عبادت معبود بر حق دنیا میں متعدد ہوتے تو آج تک دنیا کا خاتمہ ہوچکا ہوتا بلکہ یوں کہئے کہ وجود پذیری ہی نہ ہوتی اللہ تعالیٰ جو دنیا کے تخت حکومت کا واحد مالک ہے ان کی بیہود گی سے پاک ہے اس کی شان ایسی وراء الوراء ہے کہ اپنے افعال میں وہ پوچھا نہیں جاسکتا کیونکہ اس پر کوئی حکمران نہیں اس کا کوئی وزیر یا اس سے کوئی علم و عقل میں بڑھ کر نہیں اور مخلوق سب کو باز پرس ہوگی کہ تم نے یہ کیوں کیا وہ کیوں کیا پھر اس وقت ان کو بجز اظہار اطاعت کے کوئی راہ نہیں سوجھے گی مگر اس دنیا میں مشرک نہیں سمجھتے کیا اتنے برائین قاطعہ اور دلائل ساطعہ منکر بھی انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں تو کہہ کہ اگر ہماری دلیلیں تم پر کچھ اثر نہیں کرتیں تو اچھا اپنی ہی کوئی دلیل لائو جس سے ثابت ہو کہ تمہارا دعویٰ شرک اور بت پرستی کرنے کا سچا ہے تو یہ بھی کہہ کہ حیرانی کی بات ہے جب میں سنتا ہوں کہ تم اس توحید کی تعلیم کونئی سمجھتے ہو حالانکہ یہی نصیحت میرے ساتھ والوں کی ہے اور مجھ سے پہلے لوگوں کی بھی یہی نصیحت ابتدا آفرینشن سے جتنے اللہ کے بندے گذرے ہیں سب کی یہی پکار رہی ہے مگر ان میں کے اکثر لوگ سچی بات کو نہیں جانتے تو منہ پھیر جاتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ یہ نئی بات ہے ہم نے تو اس سے پہلے کبھی نہیں سنی حالانکہ جتنے رسول ہم نے بھیجے ہیں ان سب کی طرف یہی پیغام ہم بھیجا کرتے تھے کہ بس میرے سوائے کوئی معبود برحق نہیں پس میری ہی عبادت کرو ایک مزیدار بات سنو ! بت پرستی اور مردم پرستی بھی تو ایک قبیح فعل تھا ہی لطیفہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ حماقت اور جہالت میں اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ کہتے ہیں اللہ جو رحمن ہے یعنی سب سے بڑا رحم کرنے والا اس نے بھی ہماری طرح اولاد بنائی ہے ان کا خیال ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور عیسائیوں کا مذہب ہی یہ ہے کہ یسوع مسیح اللہ کا بیٹا ہے نعوذ باللہ وہ ایسی ناجائز نسبتوں سے پاک ہے بلکہ یہ تو اس کے معزز بندے ہیں مگر ایسے مرعوب اور سہمگین ہیں کہ اس اللہ کے سامنے بڑھ کر بات بھی نہیں کرسکتے اور وہ اسی کے فرمودہ پر عمل کرتے ہیں ممکن نہیں کہ سرمو تجاوز کرسکیں وہ اللہ ان سے پہلے اور پچھلے واقعات بھی جانتا ہے اس کی حکومت کا خوف ان کے دلوں میں ایسا جاگزیں ہے کہ مجال نہیں کچھ عرض معروض کرسکیں اور وہ کسی کے حق میں سفارش بھی نہیں کرتے مگر جس کے حق اللہ پسند فرمادے یعنی جو مجرم ایک حد تک اخلاص مند ہوگا۔ مگر غلطی سے بری باتوں میں مبتلا ہوگیا ہو۔ اس کی اخلاص مندی سے اللہ اس کو بخشنا چاہے گا تو کسی مقرب بندے کی سفارش اس کے حق میں قبول فرمائے گا ایسے مجرموں کے حق میں مقرب بندگان سفارش کریں گے اور وہ اس کے خوف اور جلال سے کانپتے ہیں اور اگر کسی ایسے ویسے کی کہیں تو کیا مجال کہ سنی جائے جب سفارش تک ان کو اختیار نہیں تو وحدانیت میں ان کو کیا حصہ پہنچ سکتا ہے۔ سنو ! جو کوئی ان میں کا فرضا کہیں کہہ دے کہ میں بھی اللہ سے ورے ایک معبود ہوں تو اس نالائق کو ہم ایسی جہنم کی سزا دیں کہ یاد کرے اسی طرح ہم ظالموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں خیر یہ تو بھلا نفلی اور سمعی دلائل ہیں ممکن ہے کسی معاند کو ان میں گفتگو کی مجال ہو لیجئے ہم چند عقلی دلائل بھی بیان کرتے ہیں پس غور سے سنیں کیا ان منکروں نے کبھی غور وکر کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان یعنی بادل اور زمین کیسے بند ہوتے ہیں بادلوں سے پانی کی بوند نہیں گرنے پاتی زمین سے انگوری نہیں اگتی پھر ہم (اللہ) ان دونوں کو کھول دیتے ہیں کہ فورا آسمان سے پانی گرنے لگ جاتا ہے اور زمین سے پیداوار ہوتی ہے سچ ہے نبارد ہوا تانگوئی بیار زمین نآدرد تانگوئی بیار اور سب زندہ چیزیں ہم نے پانی سے پیدا کی ہیں یعنی تمام زندہ چیزوں کی اصل پانی ہے اور پانی ہی سے ان کا نشونما ہے کیا پھر بھی یہ ایمان نہیں لاتے