وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي
اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کے لئے پسند فرمایا لیا۔
(41۔97) اور میں نے تجھے اپنے کام تبلیغ احکام کے لئے ممتاز کیا ہے پس تو اور تیرا بھائی میرے احکام اور نشانوں کے ساتھ جائو اور دیکھنا دشمنوں کے جھنبیلے میں پھنس کر میری یاد میں سستی نہ کرنا بسم اللہ کہہ کر فرعون کی طرف جائو وہ نالائق سر کش ہوگیا ہے پس جا کر اس سے نرم بات کرنا اور ملائم طریق سے سمجھانا اس نیت سے کہ شائد وہ سمجھ جائے یا ڈر جائے گو اس کی اندرونی حالت سے میں (اللہ) آگاہ ہوں کہ وہ کبھی نہ مانے گا تاہم بطور اتمام حجت کے تو اپنی رسالت کا حق ادا کیجئیو۔ خیر بہر حال خلعت نبوت سے آراستہ پیراستہ ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر میں پہنچے اور اپنے بھائی حضرت ہارون کو جو حضرت موسیٰ سے بڑے اور مصر میں بنی اسرائیل کے ساتھ مقیم تھے آملے اور نبوت کی خوشخبری سنائی تو اس کٹھن کام کا اندازہ کر کے فرعونی دربار سے ڈرتے ہوئے دونوں نے کہا اے ہمارے مولا ! ہمیں خوف ہے کہ فرعون ہم پر ظلم زیادتی کرے گا یا جوش میں آکر حد سے گذر جائے گا اور حضور اللہ تعالیٰ میں کچھ گستاخی کرے گا اللہ نے کہا تم اس بات سے مت ڈرنا میں تمہارے ساتھ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہوں پس تم دونوں اس کے پاس جا کر کہیو کہ ہم تیرے پروردگار کے رسول ہیں پس تو ہماری بات مان لے پہلے تو یہ کہ تو ربوبیت کا دعویٰ چھوڑ کر بندگی کا رتبہ اختیار کر دوم یہ کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے ہم اپنے وطن کنعان میں چلے جائیں اور ان کو ناحق تو عذاب نہ کر جیسا تو نے آج تک کیا اور کر رہا ہے۔ دیکھ ہم تیرے پروردگار کے ہاں سے تیرے پاس نشان لائے اگر تو چاہے تو ہم دکھا سکتے ہیں پس تو دل کی آنکھ سے دیکھ اور سن رکھ کہ سلامتی ہمیشہ اسی پر ہوگی جو ہدایت کا تابع ہوگا اور یہ بھی سن رکھ کہ ہماری طرف یہ وحی الٰہی پہنچ چکی ہے کہ عذاب اسی پر ہوگا جو سچی بات کی تکذیب کرے گا اور راست بازی سے روگردان ہوگا یہ سن کر فرعون نے معقول جواب تو کچھ نہ دیا صرف اتنا کہا اے موسیٰ تم دونوں بھائیوں کا پروردگار کون ہے آج تک تو میں ہی اپنی کل رعیت کا پروردگار بنا رہا آج یہ تو نے کیا نئی سنائی ہے کہ اور بھی کوئی پروردگار ہے حضرت موسیٰ چونکہ اس الٰہی کمیشن کے ہیڈ یعنی دونوں ممبروں میں سے معزز اور سینئرممبر تھے اس لئے انہوں نے کہا ہمارا پروردگار وہ ذات پاک ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کو نیک و بد سمجھایا یہ سن کر بھی وہ نادانوں کی سی باتیں کرنے لگا اور بولا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر پہلی سنگتوں اور قوموں کا کیا حال ہے جو میری عبادت کرتے کرتے مر گئے اس سوال سے فرعون کی غرض یہ تھی کہ حضڑت موسیٰ ان کے حق میں کوئی سخت سست الفاظ کہیں گے تو میرے حوالی موالی اس پر لپکیں گے جس سے اس کی عام مخالفت میری رعایا کے دلوں میں پیدا ہوجائے گی مگر حضرت موسیٰ آج کل کے علماء کی طرح جلد باز نہ تھے کہ جھٹ کفر کا فتویٰ دے دیتے اس لئے حضرت موسیٰ نے نہایت ہی دور اندیشی سے کہا کہ ادن گذشتہ زمانے والوں کا علم اللہ کے پاس کتاب میں مرقوم ہے میرا پروردگار نہ بہکتا ہے نہ بھولتا ہے بھلا وہ کیسے بھولے کیا وہ محدود علم اور محدود قدرت والا ہے؟ نہیں وہی تو ذات پاک ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا ہے اور تمہارے لئے اس میں مختلف قسم کے قدرتی راستے بنائے جو جنگلوں اور پہاڑوں میں تمہارے کار آمد ہوتے ہیں اور بادلوں سے تمہارے لئے پانی اتارتا ہے پھر اس پانی کے ساتھ ہم (اللہ) تمہارے لئے مختلف قسم کی سبزیاں نکالتے ہیں عقل مندو ! دیکھتے ہو سب کام کیسے باقاعدہ ہماری (اللہ کی) قدرت سے ہو رہے ہیں پس تم ایسا کرو کہ خود بھی کھائو اور اپنے مویشیوں کو بھی چرائو یاد رکھو ! اس میں عقل مندوں کے لئے ہماری قدرت کے کئی نشان ہیں وہ غور کر کے اس نتیجے پر پہونچ سکتے ہیں کہ جس اللہ ذوالجلال نے اتنا بڑا دنیا کا ڈہانچہ ایسے انتظام سے چلایا ہے وہ اس کام پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ قیامت کے روز مردوں کو زندہ کرے سنو ! یہ کچھ مشکل ہی نہیں اسی میں سے ہم نے تم کو یعنی تمہارے باپ آدم کو پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تم کو بعد موت لوٹا دیتے ہیں اور اسی زمین ہی سے تم کو ایک دفعہ پھر یعنی قیامت کے روز زندہ کر کے نکالیں گے خیر یہ تو تم مکہ والوں سے ضمنی کلام بطور جملہ معترضہ کے تھا اب باقی قصہ سنو ! کہ فرعون سے موسیٰ کا معاملہ کیا ہوا حضرت موسیٰ اس کے پاس آئے اور ہم (اللہ) نے اس (فرعون) کو اپنے کل نشان دکھلائے معجزات عصا اور ید بیضا وغیرہ اس کے سامنے ہوئے مگر اس کمبخت نے پھر بھی ان سب کو جھٹلایا اور منکر ہی رہا نادان بجائے تسلیم اور انقیاد کے کیسا بیہودہ طریق سے پیش آیا بولا کہ اے موسیٰ تو اس لئے آیا ہے کہ اپنے جادو کے ساتھ ہمارے ملک سے ہمیں نکال دے مخلوق کو اپنی مریدی کے جال میں پھنسا کر ہم سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے اور سرکار کی تو مخالفت کرتا یہ تیرے حق میں اچھا نہیں ہوگا ہم سرکار تیرے جادو کے برابر کا جادو لاویں گے پس تو ہم میں اور اپنے میں ایک وعدہ گاہ برابر کا مکان مقرر کر جسے نہ ہم ٹلاویں نہ تو ٹلائیو بلکہ برابر وقت پر پہونچیں اس میدان میں تیرا اور ہمارا مقابلہ ہوگا پھر دیکھیں گے تو کوئی بڑا کرتب دکھاتا ہے یا ہمارے جادو گر بڑا کھیل دکھاتے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تمہارا ہمارا وعدہ گاہ اور میدان جنگ زینت کا دن یعنی عید کے جشن کا روز ہوگا اور لوگ چاشت کے وقت سوا پہر دن چڑھے جمع کئے جائیں کھلے بندوں جھوٹ سچ کی تحقیق ہوگی اور سب کے سامنے ڈیبیٹنگ کلب (مجلس مباحثہ) لگے گی دونوں طرفوں کے جوہر ہر ایک کو نظر آویں گے پس فرعون کو بھی یہ تجویز پسند آئی اور اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے ہٹ کر اپنے ہتھکنڈوں کو جمع کیا یعنی جادوگروں کو بلایا پھر وقت مقررہ پر ان کو لے کر میدان میں آیا حضرت موسیٰ نے دیکھا کہ ایک جم غفیر جادوگروں اور قبطیوں کا بے انتہا ٹڈی دل کی طرح امڈا چلا آرہا ہے اور فرعون کی ربوبیت اور الوہیت کا شیدا اور دلداوہ ہے مناسب ہے کہ پہلے ان کو بطور وعظ و نصیحت کے کچھ کلمات سنائے جائیں پس سب سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو کہا تمہارے حال پر افسوس ہے کہ تم اللہ کی ادنیٰ مخلوق کو اللہ بنائے بیٹھے ہو اور اس کی الوہیت کی حمائت کرنے کو جمع ہوئے ہو۔ کیا امیر کیا غریب لکھے پڑھے اور جاہل سب کے سب اسی بلا میں مبتلا ہونادانو ! حقیقی اللہ پر جھوٹا بہتان مت لگائو یعنی فرعون کی الوہیت نہ مانو اور اس کی امداد نہ کرو کیونکہ یہ اللہ کی نسبت ایک گونہ بہتان ہے ورنہ اللہ تم کو کسی نہ کسی عذاب سے ضرور تباہ کر دے گا اور یاد رکھو جو اللہ پر افترا کر کے ظلم کا ارتکاب کرتا ہے وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے پس اتنا ہی حضرت موسیٰ کا وعظ سننا تھا کہ سب کے دل ہل گئے اس لئے انہوں نے اس امر باہمی نزاع کیا بعض تو کہیں کہ موسیٰ سے مقابلہ کرو بعض کہیں نہ کرو یہ کوئی اللہ والا معلوم ہوتا ہے آخر ان سب نے اس کام کے متعلق باہمی کانا پھوسیاں کیں اور انہوں نے پوشیدہ مشورے کئے آخر کار فرعون کے حاشیہ نشین جن کو فرعون کی وجہ سے عزت اور حکومت حاصل تھی فرعون کی رائے کا اندازہ کر کے حاضرین کی ڈھارس بندھانے کو بولے کہ یہ دونوں (موسیٰ اور ہارون) جادوگر ہیں ان کا ارادہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک مصر سے نکال دیں اور تمہارا سچا افضل اور پسندیدہ دین جس کی پیروی تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں برباد کرنا چاہتے ہیں پس تم اپنے تمام دائو گھات جمع کرلو پھر صفیں باندھ کر میدان جنگ میں آئو اور یاد رکھو کہ آج کے دن جو غالب رہے گا وہی ہمیشہ کیلئے کامیاب ہوگا آخر جادوگر اس تقریر فرعونی سے متاثر ہو کر حضرت موسیٰ کی طرف مخاطب ہو کر بولے کہ اے موسیٰ کیا منشآ ہے تو پہلے وار کرنا چاہتا ہے یا ہم پہلے کریں؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا یہ کیا بہادری ہے کہ دشمن کو حوصلہ نکالنے کا موقع نہ دیا جائے اس لئے میں پہلے وار کرنا نہیں چاہتا بلکہ تم ہی پہلے وار کرو پس ان کے وار کرنے کی دیر تھی کہ فورا انکی رسیوں اور لکڑیوں پر انکے جادو (مسمریزم) کے اثر سے موسیٰ کو خیال ہونے لگا کہ وہ حرکت کرتی ہیں پھر تو موسیٰ کو بھی جی میں ان سے کسی قدر خوف ہوا کہ الٰہی یہ کیا بات ہے ادھر ہم (اللہ) نے کہا اے موسیٰ! ڈر نہیں بے شک تو ہی غالب ہے یہ تو صرف رسیاں اور لکڑیاں ہیں جو مسمریزم کے اثر سے صرف تمہاری نگاہ میں متحرک معلوم ہو رہی ہے ورنہ اصل کچھ بھی نہیں پس تو مستقل رہ اور جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے یعنی عصا جس کا نظارہ تو پہاڑ پر ایک دفعہ دیکھ چکا ہے ایک دم اپنے سامنے ڈال دے پھر دیکھئیو وہ ان کی تمام کارستانیوں کو کیسے نگل جائے گا کچھ شک نہیں کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے یہ صرف جادو (مسمریزم) کا کرشمہ ہے اور نبی اور رسول کے مقابلہ پر جادوگر کہیں بھی آوے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا ڈالنا تھا کہ وہ جادوگروں کے سانپ سنپولی سب نگل گیا پس جادوگر عاجزی سے سجدے میں گر پڑے بولے کہ ہم ہارون موسیٰ کے بھیجنے والے پروردگار عالمین پر ایمان لائے ہیں کیونکہ بفحوائے ولی راولی میشنا سد دزد رادزد میشناند ہم سمجھ گئے کہ موسیٰ کے ہاتھ سے جو ظاہر ہوا ہے جادو یا مسمریزم کے اثر سے ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ ؎ کوئی محبوب ہے اس پردہ زنگاری میں فرعون تو ندامت کا مرا ڈوبتا جاتا تھا بھاگنے کو راہ نہ ملتی تھی آخر غصے میں بولا کہ ہیں ! ارے میرے اذن سے پہلے ہی تم ایمان لے آئے میں جانتا ہوں یہ موسیٰ تمہارا بڑا استاد ہے جس نے تم کو جادوسکھایا ہے اسی لئے اس کے مقابلہ سے تم عاجز ہوگئے ہو یا تم دونوں (استاد شاگردوں) نے سمجھوتہ کرلیا ہے پس میں بھی تم سے وہ کروں گا کہ تم یاد ہی کرو گے دیکھو میں تمہارے ہاتھ پائوں الٹے سیدھے (دایاں ہاتھ اور بایاں پائوں) کٹوا دوں گا اور تم سب جادوگروں کو کٹی ہوئی کھجوروں کے تنوں پر سولی دونگا اور تم جان لوگے کہ ہم (فرعون اور موسیٰ کے اللہ میں سے کس کا عذاب سخت اور زیادہ دیر پا ہے وہی بات ہوئی کہ ” نزلہ بر عضو ضعیف میر یزد“ ان بیچاروں کو تو دھمکاتا رہا مگر موسیٰ سامنے کوئی پیش نہ چل سکی کہ اسے بھی کچھ کہہ سکتا وہاں تو اژدھے کا خوف تھا وہ جادوگر بولے جناب عالی ! بے ادبی معاف ! ہمارے پروردگار کی طرف سے جو نشانات بینہ موسیٰ کی معرفت ہمارے پاس آئے ہیں ان پر اور جس اللہ نے ہم کو پیدا کیا ہے اس پر ہم آپ کو کسی طرح ترجیح نہیں دے سکتے ممکن نہیں کہ یک غلام اپنے حقیقی مالک کو چھوڑ کر اپنے ہی مالک کے ایک نافرمان بندے کو مالک تصور کرلے اور اسی کی اطاعت کا جو اپنی گردن میں ڈال لے اور پھر وہ بھلائی کی توقع رکھ سکے ایسا ہر گززیبا نہیں یہ ایک عام مثل ہے کہ جس کا کھائیں اسی کا گائیں پس جو کچھ آپ کرسکتے ہیں کرلیجئے ہماری تو اب یہ حالت ہے۔ کہ دست از طلب ندارم تاکام من برائید یا تن رسد بجاناں یا جاں زتن برآید آپ تو صرف اسی دنیا میں حکم کرسکتے ہیں بعد مرنے کے آپ کا اختیار نہیں بلکہ اس ملک کی حدود سے باہر والے بھی آپ کے حکم سے باہر ہیں مگر ہمارا پروردگار تو ایسا ہے کہ تمام زمین و آسمان کا ملک اسی کا ہے زندگی کے علاوہ بعد مرنے کے بھی اسی کا قبضہ ہے اسی لئے تو ہم اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہیں کہ وہ ہمارے سابقہ گناہ معاف کرے اور خاص کر اس جادو کا گناہ بھی معاف کرے جس پر آپ نے ہمیں مجبور کیا یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے معزز رسول کا مقابلہ کرایا اور یاد رکھئے کہ آپ کا گھمنڈ بالکل فضول ہے کہ ہم بڑی حکومت والے اور عذاب کرنیوالے ہیں اللہ سب سے اچھا اور ہمیشہ بقا والا ہے یاد رکھئے ! اس کے ہاں مقرر ہے کہ جو کوئی اپنے پروردگار کے پاس مجرمانہ وضع میں آوے گا خواہ غریب ہو یا امیر رعایا ہو یا بادشاہ اس کے لئے ضرور جہنم مقرر ہے جس میں نہ وہ مریگا کہ جان نکل کر چھوٹ جائے نہ جئے گا کہ آرام سے گذارے بلکہ دائمی عذاب میں پھنسا رہے گا اور جو لوگ اس پروردگار کے پاس ایمان دار ہو آئیں گے اور عمل نیک بھی کئے ہوں گے ان کے لئے بلند درجے ہوں گے یعنی باغ ہمیشہ رہنے کے ان کے نیچے نہریں جاری ہیں ہمیشہ ان میں رہیں گے یہ بدلہ اس شخص کا ہے جو شرک کفر اور بد اخلاقی سے پاک ہوا ہوگا مختصر یہ کہ فرعون نے ان کو مروایا اور قتل کروا دیا ہم (اللہ) نے ان کو مضبوط رکھا اور وہ اسی مضبوطی میں دم برابر کر گئے رحمہم اللہ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی سے خبر بھیجی کہ تو میرے بندوں بنی اسرائیل کو رات کے وقت فرعون کی بے خبری میں لے نکل اور سمندر پر پہنچ کر اس میں ہمارے حکم سے عصا کے ساتھ ان کے لئے خشک راستہ بنائیو ! جس سے بنی اسرائیل تمام امن و امان سے گذر جائیں دیکھنا پکڑے جانے کا خوف نہ کرنا اور نہ ڈوبنے سے ڈرنا چنانچہ حضرت موسیٰ مع بنی اسرائیل کے رات کو چل پڑے پس فرعون اپنی فوج سمیت پکڑنے کی غرص سے ان کے پیچھے ہو لیا لیکن وہ اپنی شومئی قسمت سے اس سے غافل تھا کہ یہ سلسلہ اللہ کے ہاتھوں نے بنایا ہے وہی اس کا محافظ ہے گو اس نے بارہا کرشمۂ قدرت دیکھا مگر جہالت اس کے سر پر سوار تھی پس کچھ نہ پوچھو کہ پانی نے ان کو کیسا گھیرا ایسا گھیرا کہ غرق ہوگئے اللہ کو پکارنے واویلا کرنے مگر کون سنتا ہے فغان درویش قہر درویش بجان درویش آخر انجام یہ ہوا کہ فرعون اور اس کی فوج جن کو بنی اسرائیل کے تعاقب میں ساتھ لے کر گیا تھا تمام ڈوب گئے اور سچ تو یہ ہے کہ کمبخت فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور ہدایت نہ کی اپنا الّو تو سیدھا کیا مگر ان کے فائدے کی راہ ان کو نہ بتائی کیوں اس نے ایسا کیا؟ اس لئے کہ مصنوعی اللہ تھا حقیقی اللہ کی نشان یہ ہے کہ مخلوق کو نکگ ہدایت کرے اسی لیے ہم حقیقی اللہ تم کو سمجھاتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل سنو اللہ کی شان یہ ہے کہ مخلوق کو نیک ہدایت کرے اسی لئے ہم (اللہ) نے تم کو تمہارے دشمن فرعون سے نجات دی تھی اور کوہ طور کی دائیں جانب کتاب دینے کا تم سے وعدہ کیا تھا اور تم پر یہ احسان کیا تھا کہ میدان تیہ میں تم پر من جو ایک قسم نباتات سے ہے اور سلویٰ جو ایک قسم کے پرند جانور ہیں بھیجے تھے جن کو کھا کر تم گذارہ کرتے تھے اور ہم نے تم کو اجازت دی تھی کہ ہمارا دیا ہوا پاکیزہ رزق کھائو اور اس رزق میں سر کشی ہرگز نہ کرنا بلکہ اللہ کا شکر کرو کہ اس نے اس جنگل بیابان میں بھی تم کو بے آب و نان نہیں چھوڑا پس تم ناشکری نہ کرو ورنہ میرا غضب تم پر ٹوٹ پڑے گا اور یاد رکھو کہ جس پر میرا غضب ٹوٹا پس وہ ہلاک ہوا اس کی کسی طرح خیر نہیں اور یہ بھی یاد رکھو کہ میں توبہ کرنے والوں اور ایمان داروں اور نیکوکاروں اور ہدایت پر چلنے والوں کیلئے بڑاہی بخشنہار ہوں خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو تم موجودہ بنی اسرائیل کو بطور وعظ کے سنایا گیا۔ اب اصل قصہ پھر سنو ! موسیٰ (علیہ السلام) تمام بنی اسرائیل کو لے کر میدان تیہ میں گئے جہاں چالیس سال تک انہوں نے ڈیرہ ڈال رکھا پھر حسب فرمان اللہ کوہ طور پر پہنچے تو اللہ کو سجدہ شکر کیا اور اللہ نے فرمایا اے موسیٰ تو اپنی قوم سے پہلے جلدی کیوں آگیا ہے غرض یہ تھی کہ موسیٰ اپنا مافی الضمیر خود بتلا دے چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ جناب عالی وہ بھی تو یہ میرے پیچھے آرہے ہیں اور اے میرے مولا ! میں تیرے پاس اس لئے جلدی آیا ہوں کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے اللہ نے کہا دیکھ ہم تجھے ایک نئی خبر سناتے ہیں کہ ہم نے تیرے پیچھے تیری قوم کو بچایا ہے یعنی ان کو سامری نے گوسالہ بنا کر گمراہ کردیا کہ ایک بچھڑا بنا کر ان سے اس کی عبادت کروارہا ہے ان کی بھی عقل ماری گئی کہ اسی بچھڑے کو اللہ سمجھ بیٹھے پس موسیٰ (علیہ السلام) تو یہ سنتے ہی غصے اور رنج میں بھرا ہوا واپس آیا کہا میرے بھائیو ! تمہیں کیا ہوگیا کیا تمہارے پروردگار نے تم سے ایک نیک وعدہ نہ کیا تھا کہ میں تم کو کتاب دوں گا تم کو بڑی قوم بنائوں گا تمہیں عزت دوں گا پھر یہ کیا تمہاری عقل پر پتھر پڑگئے کہ تم مالک حقیقی کو چھوڑ کر ایک مصنوعی معبود کی طرف جس کو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے جھک پڑے کیا میری غیبوبت کا زمانہ تم پر دراز ہوگیا تھا یا تم نے چاہا کہ تمہارے پروردگار کا غضب تم پر ٹوٹ پڑے اسی لئے تم نے میرے حکم اور وعدے کے خلاف کام کئے میں تو تم کو توحید کا سبق دے گیا تھا میرے پیچھے تم نے یہ کیا گل کھلائے انہوں نے کہا حضرت ہم نے آپ کی حکم عدولی اور خلاف ورزی اپنے اختیار سے نہیں کی بلکہ ہم کو ایک غلطی لگی ہے جس کی یہ صورت ہوئی کہ قوم بنی اسرائیل کے زیورات بطور چندہ جمع کر کے ہم پر لادے گئے وہ ہم نے سامری کی ترغیب پر آگ میں ڈال دئیے پھر اسی طرح سامری نے بھی اپنا حصہ یا چندہ آگ میں ڈال کر ایک بچھڑا ان کو نکال دیا جو صرف ایک ڈھیر ہی ڈھیر تھا جس میں سے بوجہ سوراخوں کے فقط ایک آواز سی نکلتی تھی پس یہ آواز سن کر سامری اور اس کے ساتھوں نے اس کو سجدہ کیا اور انہوں نے کہا کہ یہ موسیٰ کا اللہ ہے موسیٰ تو بھول گیا کہ کوہ طور پر اللہ سے ملنے اور احکام لینے گیا دیکھو تو یہ موسیٰ کی کیسی صریح غلطی ہے افسوس کہ وہ ایسے جاہل تھے کہ اپنے ہاتھ سے تو اس کو بنایا اور اسی کو اللہ سمجھ بیٹھے کیا انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ چاندی کا ڈھلا ہوا بچھڑا تو ان کو کسی بات کا جواب نہیں دے سکتا تھا (اس قوم سے مراد بہت سے علماء نے فرعون کی قوم بتائی ہے مگر یہ تفسیر کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے القوم کا الف لام خارجی سمجھا ہے مگر خارجی کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کے مدخول کا علم سامع کو پہلے سے حاصل ہو جس کی صورت یہ ہے کہ اس کا مدخول اس کلام میں پہلے آچکا ہوجیسے اس آیت میں کما ارسلنا الی فرعون رسولا فعصی فرعون الرسول اس میں الرسول پر الف لام رخارجی ہے کیونکہ اس سے پہلے رسول کا ذکر آچکا ہے یا کسی اور صورت سے اس کا علم مخاطب کو ہو غرض علم ضرور ہو۔ لیکن جب آیت زیر بحث کو دیکھتے ہیں تو اس میں کوئی لفظ ایسا نہیں پاتے جس سے مخاطب کو قوم کا علم حاصل ہوا ہو بلکہ قرینہ اس بات کا ہے کہ قوم سے مراد بنی اسرائیل ہے کیونکہ اس سے پہلے بنی اسرائیل ہی کا ذکر ہے پس بنی اسرائیل اس سے مراد ہیں۔) اور نہ ان کے لئے کسی قسم کے ضرر یا نفع کا اختیار رکھتا تھا اس کے علاوہ حضرت موسیٰ کے آنے سے پہلے ہارون نے بھی ان کو کہا تھا کہ بھائیو ! تم اس مصنوعی بچھڑے کی وجہ سے گمراہ ہوگئے ہو دیکھو باز آئو یہ شرارت تمہارے حق میں اچھی نہ ہوگی کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار اللہ ہے جو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے پس تم میری تابعداری کرو اور میرا کہا مانو مگر افسوس ان اوباشوں نے ہارون کی ایک نہ سنی بولے ہم تو ہمیشہ اسی بچھڑے پر جمے رہیں گے جب تک موسیٰ ہمارے پاس واپس آوے تیری تو ہم سننے کے نہیں نالائق ایسے بگڑے کہ اللہ کے نبی حضرت ہارون کی ایسی گستاخی کی کہ کوئی نہ کرے وجہ کیا؟ یہ کہ ہارون کی طبیعت حلیم سلیم تھی سیاست کو ذرہ سا کڑوہ پن چاہیے وہ ایسا نہ تھا اس نے بحکم ؎ کرمہائے تو مرا کرو گستاخ۔ ان پر دلیر ہوگئے آخر حضرت موسیٰ جب واپس آئے اور نبی اسرائیل سے یہ جواب سنا تو حضرت ہارون کی طرف متوجہ ہو کر انہوں نے کہا اے ہارون جب تو نے دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہوگئے ہیں تو سیاست کے متعلق میری تابعداری کرنے سے کس چیز نے تجھے روکا تھا کیوں ان ناکاروں کو تازیانوں سے سیدھا نہ کیا ایسی غفلت تونہ کرتا تو یہ مادہ فساد کیوں اتنی ترقی کرجاتا کیا تو نے بھی میری حکم عدولی کی یہ کہہ کر دینی جوش سے حضرت ہارون کی ڈاڑھی اور سر کے بال پکڑ لئے ہارون نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی ! اس جوش اور غصے کو ذرا سرد کر اور میری داڑھی اور سرکے بالوں کو چھوڑ دے میرا عذر تو سن لے اگر معقول ہو تو قبول کیجئیو اور نامعقول ہو تو اختیار باقی ہے میں اس بات سے ڈرا تھا کہ اگر میں سیاست سے کام لوں تو لامحالہ قوم میں تفریق ہوجائے گی کوئی سزا دے گا کوئی سزا پائے گا تو تو کہے گا بنی اسرائیل میں تو نے پھوٹ ڈال دی اور میرے حکم کا انتظار نہ کیا قوم کی اصلاح سے پہلے ان کی مجموعی طاقت کو بحال رکھنا مقدم فرض ہے کیونکہ یہ متفقہ فقہ کہ ؎ دولت ہمہ زاتفاق خیزد۔ مشہور ومعروف ہے۔ ہارون (علیہ السلام) کا معقول عذر سن کر حضرت موسیٰ نے ان کو تو چھوڑ دیا پھر اصل مجرم کی طرف متوجہ ہو کر بولے کہو رے ! او سامری نالائق تیرا کیا حال اور کیا عذر ہے تو نے یہ فساد کی جڑ کیوں قائم کی اس نے کہا صاحب اصل بات تو یہ ہے کہ جو کچھ میں نے کیا محض ایک دل لگی اور خوش طبعی سے کیا ہے چونکہ آپ اس کی وجہ مجھ سے پوچھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ میں نے وہ چیز دیکھی جو انہوں نے نہ دیکھی میں نے دیکھا کہ بے کار سے بیگار بھلی چلو کوئی مشغلہ کریں پس میں نے رسول یعنی آپ کے اثر قدم سے مٹی کی ایک مٹھی بھر لی اور اس کو ان زیورات میں ڈال دیا اصل میں تو میں جانتا تھا کہ کچھ نہیں صرف ان احمقوں کو اس جال میں پھانسنے کے لئ میں نے ایسا کیا ہے اور میری نفسانی خواہش سے مجھے یہ بات بھلی معلوم ہوئی تو میں نے بھی بقول شخصے بیکار نہ بیٹھ کچھ کیا کر ٹانکے ہی ادھیڑ کر سیا کر ایک مشغلہ نکالا اور میرا خیال تو یہ ہے کہ سب لوگ اسی طرح دنیا میں بڑے بن جاتے ہیں کہ چند لوگ عقل کے دشمن ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں پس ان کا کام بن جاتا ہے یہ نامعقول تقریر سن کر حضرت موسیٰ نے کہا او نادان بازی بازی باریش بابا بازی کیا تجھے اور کوئی مشغلہ نہ رہا تھا؟ دین ہی میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی سوجھی۔ ہائے کمبخت تیری بے نور عقل نے تجھے گمراہ کیا پس جا دفعہ ہوجا اسی دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہ ہوگی کہ تو لوگوں کے ملنے سے تکلیف اٹھائے گا تو کہے گا کہ مجھے مت چھونا آبادی میں تنگ ہو کر جنگلوں بیابانوں میں بھٹکتا پھرے گا آخر کو ایک روز کتے کی موت مرے گا اور یاد رکھ تیرے لئے ایک اور وعدہ ہے جو اس دنیا کی زندگی سے بعد ہوگا جو تجھ پر سے کسی طرح نہ ٹلے گا اب میں تجھ پر سزا کا حکم کرتا ہوں پس تو ہوشیار رہ اور اپنے اس مصنوعی معبود کی طرف دیکھ جس پر تو جمارہا ہے اور لوگوں کو اس کی طرف بھگا کر گمراہ کرتا رہا نالائق دیکھ ہم اسے جلائیں گے اور راکھ کر کے اس کو ایک دم پانی میں بہا دیں گے چاہے وہ چاندی سونے کا ہے مگر اس کی معنوی نجاست اور باطنی خبث کی وجہ سے کسی کو اس کے استعمال کی بھی اجازت نہ دیں گے چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا (بہت سے مفسرین نے الرسول کی تفسیر جبرئیل سے کی ہے مگر اس تفسیر پر وہی اعتراض ہے جو ہم ص ٩٤ پر القوم کے حاشیہ میں لکھ آئے ہیں یعنی جبرئیل مراد ہونا اسی امر پر مبنی ہے کہ الرسول پر الف لام خارجی ہو خارجی الف لام کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کے مدخول کا علم قبل ازیں حاصل ہو حالانکہ یہاں پر جبرئیل کی رسالت کا کوئی ذکر نہیں البتہ حضرت موسیٰ کی رسالت کا علم سب کو تھا۔ اس لئے یہ تفسیر ہم نے کی ہے۔ )