وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا
ہم نے اسے بلند مقام پر اٹھا لیا (١)
(57۔98) ہم نے اس کو ایک بڑے عالی مرتبہ پر بلند کیا تھا جو نبوت کا درجہ ہے جس سے اور بنی آدم کے لئے کوئی مرتبہ نہیں ہوسکتا۔ اگر تم معلوم کرنا چاہو کہ یہ انبیاء کون لوگ ہیں تو سنو ! یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے انعام اکرام دئیے یہ آدم کی اولاد میں سے نبی ہیں اور ان میں سے ہیں جن کو ہم نے حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا اور یہ لوگ ابراہیم اور اسرائیل یعنی یعقوب کی اولاد میں سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جن کو ہم (اللہ) نے ہدایت کی تھی اور برگزیدہ بنایا تھا ان میں کیا کمال تھا کیا کچھ وحدانیت میں ان کو حصہ تھا۔ یا کسی کی بلا دفع کرنے یا جلب نفع میں انکو اختیار تھا؟ نہیں بلکہ کمال ان میں یہ تھا کہ جب انکو اللہ رحمن کی آیتیں سنائی جاتیں تو روتے روتے سجدے میں گر پڑتے یعنی اللہ کی قدرت کا سماں ان کی آنکھوں کے سامنے ایسا آجاتا اور دل پر ایسا اثر کرتا کہ گویا اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر یہ کیفیت اور کمال ان کی زندگی ہی تک رہا پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ہوئے جن میں پہلی برائی تو یہ تھی۔ کہ انہوں نے احکام شرعیہ سے رو گردانی کی اور نماز جیسے ضروری حکم کو ضائع کیا اور نفسانی شہوات کے پیچھے پڑگئے پس اس کی پاداش اٹھائیں گے لیکن چونکہ اللہ کو اپنی مخلوق سے بڑی محبت ہے ایسی کہ باپ کو بیٹے سے بھی ہو اس لئے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے گو پہلی زندگی میں ان سے غلطیاں بھی ہوچکی ہوں وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ذرہ بھر بھی ان پر ظلم نہ ہوگا وہ جنت معمولی چند روزہ نہیں ہوگی بلکہ ہمیشہ کے رہنے کے باغ ہیں جن کا اللہ نے رحمن نے غائبانہ اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے بے شک اس کے وعدے پورے ہوں گے وہ لوگ ان جنتوں میں کوئی لغو بات نہ سنیں گے مگر آپس میں ایک دوسرے کا سلام سنیں گے اور ان باغوں میں ان کو صبح شام اور جس وقت چاہیں گے بڑی عزت سے رزق ملے گا ایسی جنت اور آرام گاہ کی خبر سن کر ہر ایک شخص کو خواہش ہوتی ہے کہ میں بھی اس میں جائوں مگر ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ ہم اس جنت کے وارث اپنے بندوں میں سے انہی لوگوں کو کریں گے جو پرہیز گار یعنی متقی ہوں گے یہ ضرور نہیں کہ سب کے سب اعلیٰ درجے کے متقی اور زاہد تارک دنیا ہوں۔ نہیں بلکہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوں۔ فرائض اللہ تعالیٰ کی تعمیل کرتے ہوں غرض مختصر یہ کہ نیک چلن اور خوش وضع ہوں تو اللہ کے فضل سے جنت میں جائیں گے باقی اصل پوچھو تو یہ سب کچھ اللہ کے فضل ہی سے ہوتا ہے اس کے آگے کسی کی مجال نہیں کہ چوں بھی کرسکے ہم فرشتے جن کو یہ مشرک لوگ نادانی سے اللہ کی اولاد کے درجے پر جانتے ہیں ہماری تو اتنی بھی مجال نہیں کہ نقل و حرکت بھی اس کے اذن کے بغیر کرسکیں تمہارے پروردگار کے حکم کے بغیر ہم آسمان سے نہیں اترتے (ایک دفعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل سے کہا تھا کہ تم ہمارے پاس جلد جلد آیا کرو تمہاری ملاقات سے ہمیں سرور حاصل ہوتا ہے اس لئے اللہ نے یہ آیت جبرئیل کی زبان پر نازل کر کے سمجھایا کہ ہمارا آناجانا اپنی مرضی سے نہیں۔ (منہ) وہ ایسا باہیبت بادشاہ ہے کہ جو کچھ ہمارے آگے پیچھے اور اس کے درمیان میں ہے سب کا وہی مالک ہے یہ سب چیزیں اور ملک اسی کی ملک ہیں باایں ہمہ وہ سب کا محافظ ہے اور تمہارا پروردگار کسی چیز کو بھولتا نہیں وہ تمام آسمانوں اور زمینوں اور زمین و آسمان کے باشندوں اور ان کے درمیان والی مخلوق کا پروردگار ہے پس تم اس کی عبادت کیا کرو اور اسی کی عبادت پر جم جائو کیونکہ اس جیسا کوئی اور نہیں کیا تم اس جیسا کسی کو جانتے ہو تمہارے علم میں کوئی ہے جو اللہ یا معبود برحق کہلانے کا حق رکھتا ہو۔ ہاں یوں جہالت سے کوئی کہے تو اور بات ہے دنیا میں بہت سے عقل کے مدعی ایسے بھی ہیں کہ اللہ کے نشانات ظاہرہ دیکھ دیکھ کر بھی اکڑتے ہیں اور ناشائستہ حرکات کرتے ہیں اور انسان تو ایک عجیب کرشمہ قدرت ہے تم نے اس نالائق انسان کو بھی سنا جو کہتا ہے کہ کیا میں مر کر زندہ اٹھوں گا یہ امر اس کی چھوٹی سی عقل میں نہیں آتا کیا اسے یاد نہیں کہ ہم نے اسے پہلے جب وہ کچھ بھی نہ تھا ایک دفعہ پیدا کیا پھر یہ پتلا جاندار اور بے عقل اتنا نہیں سمجھتا کہ جس اللہ نے اسے عدم محض سے وجود بخشا وہ بعد وجود کے وجود نہ دے سکے گا؟ واللہ ہم (اللہ) ان کو اور ان کے بہکانے والے شیاطین کو بھی جمع کریں گے پھر ان کو جہنم کے ارد گرد دوزانو بیٹھے ہوئے حاضر کریں گے پھر ہم ہر ایک گروہ میں سے ان شریروں کو جو اللہ رحمان کے سامنے بڑی گردن کشی کرتے تھے الگ کریں گے تاکہ لوگ ان کی حالت اور کیفیت کا اندازہ کریں پھر جن لوگوں کو ہم جہنم کے زیادہ لائق جانتے ہوں گے ان کو داخل جہنم کریں گے اور یوں تو یہ یقینی امر ہے کہ تم میں کاہر ایک اس جہنم پر عبور کرے گا یہ کام تیرے پروردگار کا قطعی وعدہ ہے پھر بعد اس عبور کے جو لوگ متقی اور پرہیز گار ہوں گے ان کو تو ہم دوزخ سے نجات دیں گے اور اس کے پار جنت میں انکا اتار کرائیں گے اور طالموں بدکرداروں کو جو واقعی جہنم کے قابل ہوں گے اس جہنم میں اوندھا گرائیں گے یہ سن کر بھی ان کو اثر نہیں ہوتا بلکہ الٹے غراتے ہیں اور جب ہمارے کھلے کھلے احکام ان کو سناتے جاتے ہیں تو جو لوگ کافر اور شقی ازلی ہیں وہ ایمانداروں کو کہتے ہیں کہ تم اس جنت کا دعویٰ کرتے ہوئے شرماتے نہیں اے کم عقلو ! اتنا بھی نہیں سوچتے ہو کہ ہم اس جہان میں کیسے آسودہ اور خوش گذران ہیں اور تم کیسے فاقوں مر رہے ہو پس بتلائو ہم اور تم دونوں فریقوں میں سے کس کا مرتبہ اچھا ہے اور کن کی مجلس زینت دار ہے مگر نالائق یہ نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے کہ ان سے پہلے ہم نے بہت سی قومیں تباہ کردیں جو ان سے اچھے ساز و سامان اور خوبصورتی والے تھے یہ ان کو معلوم نہیں کہ ہمارے ہاں قاعدہ ہی اور ہے ہم کسی کے رونگ و روغن پر فریفتہ نہیں ہوتے یہ تو ہمارا ہی پیدا کردہ ہے بلکہ ہم تو دلوں کے حال پر اطلاع رکھتے ہیں جو کوئی دل سلیم رکھتا ہے وہ ہمیں اچھا اور بھلا معلوم ہوتا ہے چاہے غریب ہو یا امیر خوش شکل ہو۔ یا بد وضع مختصر یہ کہ ہمارے ہاں قاعدہ ہی یہ ہے کالے گورے یہ کچھ نہیں موقوف دل کے لگنے کا ڈھنگ اور ہی ہے چونکہ ان کی بنا ہی غلط ہے پس تو ان سے کہدے کہ اپنی دولت اور صحت پر نازاں نہ ہو اللہ کے ہاں قاعدہ ہے کہ جو کوئی گمراہی میں ہوتا ہے اللہ بھی اس کو چند روز تک ڈھیل دئیے جاتا ہے ایسا ہی ان سے ہوگا یہاں تک کہ جب یہ لوگ اپنے موعودہ عذاب کو دنیا میں یا آخری گھڑی کو قیامت میں دیکھیں گے تو ان کو معلوم ہوگا کہ کس کا مرتبہ برا تھا اور جتھا کمزور اپنی حالت دیکھ کر اپنی اور اپنے حمائیتوں کی کمزوری محسوس کر کے چلائیں گے روئینگے سر پیٹیں گے مگر کچھ بن نہ پڑے گا لیکن جو لوگ ہدایت پر ہیں اللہ ان کی ہدایت اور زیادہ کرتا ہے اور اصل بات تو یہ ہے کہ نیک اعمال جو بعد موت پیچھے رہنے والے ہیں وہی تمہارے پروردگار اللہ ذوالجلال کے نزدیک اچھے بدلے اور عمدہ انجام والے ہیں مگر اس کو سوچنے والے بہت کم ہیں اب تو یہ حال ہے کہ جس کو یہاں کچھ جاہ و مال ملتا ہے بس وہ یہی سمجھتا ہے کہ میں ہی سب سے اچھا ہوں اس دنیا میں بھی اور اس جہان میں بھی کیا تو نے اس نادان اور نا سمجھ آدمی کو بھی دیکھا جس میں دو عیب ہیں ایک تو یہ کہ ہمارے حکموں سے منکر ہے اور انکی تکذیب کرتا ہے دوم یہ کہتا ہے کہ جس طرح اس دنیا میں مجھے مال و دولت ملا ہے اسی طرح دوسری زندگی میں بھی مجھے مال واولاد ملیں گے بھلا اسے کیونکر یہ معلوم ہوا کیا یہ اللہ کے غیب پر اطلاع پا چکا ہے کہ اس سے ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا یا اس نے اللہ رحمان سے کوئی عہد لیا ہے ہرگز نہیں نہ تو اسے غیب کی خبر ہے نہ اللہ نے اس سے وعدہ کیا ہے بلکہ صرف منہ سے بکواس کرتا ہے جس کا بدلہ بہت برا پاوے گا ہم (اللہ) بھی اس کی باتوں کو لکھ لیں گے اور وقت پر اس کو سمجھا دیں گے اور اس کے لئے عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے اور جو کچھ یہ مال و اسباب کے گھمنڈ میں کہتا ہے ہم ہی اس کے مالک ہوں گے گو اب بھی ہم ہی مالک ہیں لیکن اس کی چند روزہ مجازی حکومت جو اس دنیا میں ہماری دی ہوئی ہے سب چھین لیں گے اور ہمارے حضور تن تنہا ہو کر آئے گا اور ان کی حماقت دیکھو کہ اللہ کے سو اور لوگوں کو معبود بنا رکھا ہے تاکہ آڑے کام میں ان کے مددگار اور حامی ہوں ہرگز وہ حامی نہ ہوں گے بلکہ قیامت کے روز ان کی عبادت سے انکار کریں گے اور الٹے ان کے دشمن ہوجائیں گے اصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہی قاعدہ ہے کہ ہم ایسے شریروں اور ضدیوں کو ڈھیل دیا کرتے ہیں تاکہ یہ اور بھی جی کھول کر شرارتیں کرلیں کیا تو دیکھتا نہیں کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر مسلط کر رکھا ہے کہ وہ ان کو برائیوں پر اکساتے رہیں لیکن سچ پوچھو اور تجزیہ کرو تو اس کو ایک قدرتی قانون پائو گے کہ جو کوئی برائی پر مصر رہتا ہے اس کی یہی حالت ہوجاتی ہے پس تو اے رسول ان کی ہلاکت پر جلدی نہ کر ہم تو ان کے لئے دن گن رہے ہیں عنقریب ان کی ہلاکت ہونے کو ہے دنیاوی ذلت کے علاوہ جس روز یعنی قیامت کے دن ہم سے اللہ رحمن اپنے حضور میں تمام پرہیز گاروں اور متقیوں کو بڑی عزت سے مہمانوں کی طرح جمع کریں گے اور مجرموں بدکاروں حرامکاروں کو جہنم کی طرف پیاسے ہانکیں گے اس وقت ان کی ایسی گت ہوگی کہ اللہ دشمن کی نکرے جن کو یہ لوگ معبود اور متولی امور بنائے بیٹھے ہیں کسی بلا کے دفع کرنے کا خود تو انہیں کیا ہی اختیار ہوگا سفارش کرنے کا بھی ان کو اختیار نہ ہوگا اور واقعی بات یہ کرے کون ہاں وہ کرے جس نے اللہ کے ہاں سے اس امر کا کوئی وعدہ لیا ہو سو ایسا تو کوئی نہیں انبیاء علیہم السلام مدت مدید سربسجود ہو کر بصد منت و سماجت اذن لیکر کچھ عرض کریں گے پھر بھی یہ نہ ہوگا کہ کسی بےدین مشرک کافر یا سرکش کی سفارش کرسکیں بلکہ انہی لوگوں کی کریں گے جو اللہ سے اخلاص رکھتے ہونگے مگر نفس کی غلطی سے گناہ میں آلودہ ہوگئے ہیں یہ نہیں کہ دانستہ ہوش و حواس میں اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہوں جیسے یہ مکہ کے مشرک اور عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ رحمن نے اولاد بنائی ہے فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں اور مسیح اس کا بیٹا ہے او نادانو ! تم نے بڑی بے ڈھب بات کہی ہے اور بہت ہی بدعملی کی راہ اختیار کی ایسی کہ ساتوں آسمان اس کی برائی سے پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزے ریزے ہو کر گرپڑیں تو تعجب نہیں کیونکہ اللہ رحمن کیلئے اولاد تجویر کرتے ہیں حالانکہ اللہ مالک الملک ہے۔ قدوس ہے رحمان ہے۔ رحیم ہے کسی طرح اس کو لائق نہیں کہ کسی کو اپنی اولاد بتائے تمام آسمانوں اور زمینوں والے تو اللہ رحمان کے سامنے دست بستہ غلامانہ حاضر ہونگے جس کے رحم کی یہ کیفیت ہے کہ تمام دنیا کے ذرے ذرے کو شامل ہے اس کی قدرت اور علم کی یہ کیفیت ہے کہ اس نے ان میں سے ایک ایک کو اپنی قدرت کے احاطہ میں گھیر رکھا ہے اور ایک ایک کو گنا ہوا ہے مجال نہیں کہ کوئی اس کے احاطہ قدرت یا علم سے باہر جا سکے سب کے سب اس کے سامنے مقہور اور مغلوب ہیں دنیا میں اور قیامت کے روز بھی ہر ایک ان میں سے اس کے پاس اکیلا اکیلا تن تنہا حاضر ہوگا کوئی کسی کا حمائیتی نہ ہوگا کوئی کسی کا غمگسار نہ ہوگا غرض یہ نقشہ ہوگا بھائی کو بھائی چھوڑ دے بیٹے کو مائی چھوڑ دے خاوند کو کائی چھوڑ دے ایسی پڑے کھل بل بہم ہاں اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور عمل بھی نیک کرتے ہیں اللہ تعالیٰ جو بڑا رحمان ہے محض اپنے رحم اور فضل سے ان کی آپس میں محبت پیدا کر دے گا وہ ایک دوسرے کے دوست ہوں گے باقی سب دوست دنیا کے ایک دوسرے کے بد خواہ بن جاویں گے پس تو انکو اس دن کی مختصر کیفیت سنا دے اسی لئے تو ہم (اللہ) نے قرآن کو تیری زبان عربی کے محاورے پر آسان کیا ہے تاکہ تو اس کے ساتھ نیک بختوں کو خوشخبری دے اور حق اور راستی کے سخت دشمنوں کو بھی جیسے یہ عرب کے لوگ ہیں عذاب الٰہی سے ڈرا دے گو ہم جانتے ہیں کہ انکو اپنی شاہ زوری اور دنیاوی عزو جاہ کا بہت کچھ گھمنڈ ہے تاہم ان کو سنا اور بتلا کہ ہم (اللہ) نے ان سے پہلے کئی ایک جماعتوں اور جتھوں کو ہلاک اور تباہ کیا۔ کیا تم ان میں سے کسی کو معلوم کرتے ہو یا کسی کے پائوں کی آہٹ بھی سنتے ہو؟ ہرگز نہیں بس اسی طرح وقت پر ان کی بھی گت ہوگی آغاز کسی شے کا نہ انجام رہے گا آخر اسی اللہ کا اک نام رہے گا