سورة الكهف - آیت 23

وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا میں اسے کل کروں گا۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(23۔31) اور اگر کوئی شخص تجھ سے کوئی ایسی بات دریافت کرے اور تجھے معلوم نہ ہو تو کسی امر کی بابت تو یوں نہ کہا کر کہ میں یہ بات کل بتلائوں گا یا یہ کام ضرور کروں گا لیکن یوں کہا کر جو اللہ چاہے ہوجاوے گا اور جب تو انشاء اللہ بروقت کہنا بھول جائے تو بعد اس کے اپنے پروردگار کو یاد کیا کرو اور انشاء اللہ کہہ لیا کر (مخالفوں نے جب اصحاب کہف کا قصہ دریافت کیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں کل بتلائوں گا۔ مگر انشاء اللہ کہنا بھول گئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ راقم کہتا ہے اس لحاظ سے اس کا تعلق شروع قصہ سے ہے۔ مگر حکم عام ہے۔ (منہ) اس لئے کہ دنیا میں جتنے کام ہوتے ہیں سب کے سب اس کی مشیت اور ارادے ہی سے ہوتے ہیں پس مناسب ہے کہ تو اپنے تمام ارادوں پر اللہ کے ارادے کو غالب کیا کر اور کہا کر امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی راہ بتلا دے گا اگر میں انشاء اللہ کہنا بھول گیا تو خیر آئندہ کو انشاء اللہ بہتری کی امید ہے کیونکہ میں نے انشاء اللہ کا ترک قصدا وعناداً نہیں کیا۔ اب اصل قصہ پھر سنو ! ہم تمکو بتلاتے ہیں کہ وہ غار میں داخل ہوگئے اور وہ اپنی غار میں کل مدت تین سو نو سال قمری رہے (قمری کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عرب میں قمری حساب ہی تھا۔ قرآن شریف میں دوسری جگہ یہی ارشاد ہے یسئلونک عن الاھلۃ قل ھی مواقیت للناس والحج یعنی اے رسول تو ان لوگوں سے کہہ چاند لوگوں کے حساب کے لئے کم و بیش ہوتا ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ شمسی حساب سے تین سو اور قمری حساب سے نوزائید۔ یہ قول غلط ہے۔ قرآن شریف تو خود بتلاتا ہے اور عرب میں رواج بھی یہی تھا کہ سالوں کا حساب قمری مہینوں سے تھا۔ پھر قرآن میں اس کے برخلاف حساب کیوں آنا تھا۔ علاوہ اس کے اس تفصیل کے لئے (کہ تین سو شمسی اور تین سو نو قمری) کوئی اشارہ بھی نہیں۔ فافہم (منہ) اگر یہ لوگ اس بارے میں جھگڑیں کہ نہیں اتنی مدت تک ٹھیرے کوئی کہے اتنی تو تو ان سے کہہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے ٹھیرنے کی مدت کو خوب جانتا ہے اسی نے ہم کو یہ بتلایا ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کے غیب کی باتوں کا علم اسی کے پاس ہے پھر اس کا بتلایا ہوا اندازہ کیونکر غلط ہوسکتا ہے حالانکہ وہ بہت بڑا دیکھنے والا اور سننے والا ہے یہ تو اس کے علم کا ذکر ہے حکومت کی یہ شان ہے کہ ان سب دنیا کے رہنے والے لوگوں کے لئے اس کے سوا کوئی کار ساز نہیں وہ ایسا مالک الملک شہنشاہ ہے کہ سب کچھ اکیلا ہی کرتا ہے اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا وہ اکیلا ہی تمام دنیا کا بادشاہ بلکہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے پس یہ کہکر انکی طرف کان بھی نہ لگا کہ کیا کہتے ہیں اور جو کچھ تیرے پروردگار کی کتاب کے احکام تیری طرف بھیجے جاتے ہیں وہ پڑھ دیاکر اور اسی پر بھروسہ رکھ جو کچھ اس نے تجھ سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا ہے ممکن نہیں کہ پورا نہ ہو کو نکہ اس کے حکموں کو کوئی بدل نہیں سکتا اور اس کے سوا تو کہیں پناہ کی جگہ نہ پاوے گا بس اسی کا ہو رہ اور ان دنیا داروں سے الگ رہا کر اور جو لوگ اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے ہیں کسی کے دکھاوے اور ریا سے نہیں بلکہ محض اسکی رضا جوئی چاہتے ہیں تو ان کے ساتھ وابستگی رکھا کر اور ان کو چھوڑ کر دنیا کی زینت کا ارادہ کرتا ہوا کسی دوسرے کی طرف التفات نہ کرنا (عرب کے مشرک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کرتے تھے کہ جب ہم آویں تو ان غریب مسکین مسلمانوں کو مجلس سے ہٹا دیا کرو تو ہم آپ کی سنیں گے۔ آنحضرت کا خیال بھی اس طرف اس نیت سے ہونے کو تھا کہ چند روز بعد یہ لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے۔ سردست ان کے اس بے جا غرور کو مان لیں مگر اللہ کے ہاں ان فرعونی دماغوں کی خاک بھی قدر نہ تھی۔ اس لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ (منہ) اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور اس کی کارروائی حد سے متجاوز ہے ایسے آدمی کی بات کبھی نہ مانیو۔ تو نہیں جانتا کہ اللہ کی یاد اور خوف سے جو غافل ہو وہ مردہ ہے چاہے وہ کیسے ہی بن تھن کر رہے تو بھی اس سے زیادہ نہیں کہ وہ مردہ ہے زندگی حق کی پیروی کرنے کا نام ہے ظاہری جسمانی حرکت اور سجاوٹ کا نام نہیں پس تو اے نبی ان کو سمجھا اور تو کہہ کہ یہ سچی تعلیم تمہارے پروردگار کے ہاں سے آپہونچی ہے پس جو چاہے ایمان لائے جو چاہے کافر بنے مگر اتنا یاد رکھے کہ ہم (اللہ) نے ایسے ظالموں کے لئے جو باوجود واضح ہوجانے حق کے نہ مانیں آگ تیار کر رکھی ہے جو ایک محاط مکان کے اندر ہوگی جس کی قناتوں یعنی چار دیواری نے ان پر گھیرا ڈالا ہوگا اگر تکلیفوں پر فریاد کریں گے اور پیاس پر پانی مانگیں گے تو تانبے کے رنگ جیسے گرم پانی سے ان کی فریاد رسی کی جاوے گی جو منہ اور ہونٹوں کو بوجہ گرمی اور شدت غلیان کے جلا دے گا پس اسی سے تم سمجھ لو کہ کیسا برا پانی ہوگا اور وہ کیسی بری جگہ ہوگی اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ہیں ہم ان کے اعمال کا ان کو بدلہ دیں گے کیونکہ ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ ہم نیک اعمال کرنے والوں کے عمل ضائع نہیں کیا کرتے انہی نیک لوگوں کیلئے ہمیشہ کے باغ ہیں جن میں ان رہنے والوں کے مکانوں کے نیچے نیچے نہریں جارہی ہونگی جن میں وہ جنتی حسب مراتب سونے اور چاندی کے کنگن پہنائے جائینگے اور سبز لباس باریک اور دبیز وہ ان باغوں میں تختوں پر بیٹھے ہوں گے یہ بہت ہی اچھا بدلہ ہے اور بہت ہی عمدہ جگہ مگر یہ ایسے عقلمند کہاں ہیں کہ ایسی سچی اور یقینی بات کو مان لیں جنہوں نے دنیا ہی کو مدار کار سمجھا ہوا ہے