وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس با فراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا (١)۔
(112۔119) اور سنو ! اللہ ایک شہر یعنی مکہ شریف کا حال لوگوں کی ہدائت کے لئے بطور مثال بیان کرتا ہے تاکہ لوگ سمجھیں کہ اللہ کے احسانوں اور انعاموں پر شکر نہ کرنے سے کیا کیا تباہیاں آیا کرتی ہیں وہ شہر یعنی مکہ تم کو معلوم ہے کیسا امن چین میں گذر اوقات کر رہا تھا کہ ہر ایک دور دراز مقام سے اس کو رزق پہنچتا تھا پھر جب اس شہر والوں نے اللہ کی نعمتوں کی بے قدری کی اور بجائے شکر ان کے کفران کرنے لگے تو اللہ نے ان کے برے اعمال پر ان کو بھوک اور خوف اعدا کا مزہ چکھایا اللہ کی نعمتوں کی ناشکری تو کرتے ہی تھے اللہ کے احکام پہنچانے والے سے بھی بگڑ بیٹھے (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ شریف سے ہجرت کر گئے تو مکہ والوں پر بلائوں اور آفتوں کی ایسی بھرمار ہوئی کہ الامان۔ ان کی بری حالت کا ذکر بطور تمثیل اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔ ١٢) اور جب اللہ کی طرف سے انہیں کی برادری اور قوم میں سے ایک رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس خاص انہیں کی ہدایت کو آیا تو بجائے تسلیم اور اطاعت کرنے کے انہوں نے اسے بھی جھٹلایا لگے بیہودہ طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرنے پھر تو کیا تھا آخر ایک مدت بعد جو اللہ کے نزدیک ان کو مہلت دینے کے لیے مقرر تھی عذاب الٰہی نے ایسے حال میں انکو آ پکڑا کہ وہ انہی بدکاریوں کی وجہ سے ظالم تھے آخر بکری کی ماں کب تک خیر مناتی ایک دن تو قانونی شکنجہ میں انہوں نے پھنسنا ہی تھا پس اس قصے سے تم سب حاضرین اور سامعین عبرت پائو اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو حلال طیب رزق دیا ہے اس میں سے خوب مزے سے کھائو اور اللہ کی دی ہوئی نعمت کا شکریہ کرتے رہو اگر تم اسی کے پرستار ہو تو یہی کام کرو اور بس اپنی اپنی ایجاد اور خیال سے نئی نئی چیزیں حرام نہ کرلیا کرو بلکہ جس چیز کی اس نے اجازت دی ہو اسے کھالیا کرو اور جو حرام کی ہو اسے چھوڑ دیا کرو اس اللہ نے تم پر صرف خود مردہ مردار اور ذبح کے وقت بہتا ہوا خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا ہے اور ان کے علاوہ جو چیز اللہ کے سواکسی کے نام پر نامزد کی جائے۔ بکری ہو تو۔ روٹی ہو تو۔ جاندار ہو تو۔ بے جان ہو تو۔ غرض کسی مخلوق کو قبول کر کے نفع دینے اور نقصان سے بچانے والا جان کر کوئی چیز اس کے نام نذر کی جائے وہ حرام ہے کیونکہ یہ بنیاد شرک ہے پھر جو بھی جو شخص بھوک کی وجہ سے مجبور ہو اور اسے حلال چیز کھانے کو نہ ملے لیکن ایسے حال میں کہ اللہ کے حکموں سے سرکش اور زیادہ کھا کر حد سے متجاوز نہ ہو اور بقدر سدرمق کھا لے تو اسے گناہ نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے اس کی بخشش دو طرح سے ہے کبھی تو گناہ کے ظہور پذیر ہونے پر معافی سے کبھی کسی فعل پر سرے سے گناہ کا وصف سلب کردینے سے اس صورت میں یہ آخری شق ہے کہ اللہ نے اس فعل کو جو اور وقتوں میں گناہ تھا مجبوری کے وقت میں گناہ قرار نہیں دیا پس تم اللہ ہی کے فرمانبردار بنے رہو اور بے سوچے سمجھے اپنی زبانوں کے جھوٹے بیان کی پچ سے کسی چیز کی نسبت نہ کہا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام (مشرکین عرب کے پاس شریعت تو تھی نہیں مگر تاہم وہ کئی ایک چیزوں کو حلال اور کئی ایک کو قومی طریق سے حرام سمجھتے تھے اور مسلمانوں سے ان مسائل میں جھگڑا کرتے تھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ ١٢ منہ) جس کا نتیجہ تمہارے حق میں یہ ہو کہ تم اللہ پر جھوٹ کے بہتان باندھنے لگو جو چیز اللہ نے حرام نہیں کی اسے حرام کیوں کہو۔ سنو ! جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا کرتے ہیں ہرگز بامراد نہ ہوں گے بلکہ ہمیشہ نامراد رہیں گے دنیا میں ان کے لئے تھوڑا سا گذارہ ہے اور آخرت میں ان کے لیے دکھ والا عذاب ہے تم پر تو یہ چیزیں حرام ہیں اور یہودیوں پر ہم نے وہ چیزیں حرام کی تھیں جو پہلے ہم سورت انعام رکوع ١٨ میں بیان کر آئے ہیں وعلی الذین ھادو احر منا کل ذی ظفر الآیۃ دراصل یہ ان کی سرکشی کی سزا تھی اور ہم نے ان پر کسی طرح سے ظلم نہ کیا تھا۔ لیکن وہ خود اپنی جانوں پر بدکاریوں کی وجہ سے ظلم کرتے تھے پھر بھی باوجود ان شرارتوں کے جو لوگ غلطی سے برے کام کر کے اس سے پیچھے توبہ کرلیں اور صالح بن جائیں تو تیرا پروردگار اس توبہ کے بعد ان کے حق میں بڑا بخشنہار مہربان ہے