سورة ابراھیم - آیت 16

مِّن وَرَائِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَىٰ مِن مَّاءٍ صَدِيدٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اس کے سامنے دوزخ ہے جہاں پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ (١)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(16۔22) یہ تو ان پر دنیا کا عذاب تھا اور ابھی تو اس سے آگے جہنم کا عذاب ہے جس میں اللہ کی پناہ ان کی کیا کچھ گت ہوگی اور وہاں شدید پیاس پر پیپ جیسا پانی ان کو پلایا جائے گا جس کو چسکیاں اور گھونٹ بھر بھر کر پییں گے اور اس کی تلخی اور بدمزگی کی وجہ سے پی نہ سکیں گے اور ان کو موت کی سی تکلیف ہر طرف سے آئے گی اور وہ مریں گے نہیں بلکہ سخت تکلیف میں گذاریں گے کیونکہ حکم الٰہی ان کی موت کے متعلق نہ ہوگا اور اس سے علاوہ ایک قسم کا سخت عذاب اور بھی ہوگا یہ مت سمجھو کہ بعض کافر نیک کام بھی کرتے ہیں دان پن دیتے ہیں خیرات کرتے ہیں ان کا اجر ان کو نہ ملے گا؟ سنو ! جو لوگ اپنے رب سے منہ پھیر کر اور غیروں سے نیاز عبودیت کر کے اللہ سے انکاری ہیں ان کے نیک اعمال کی مثال اس راکھ کے ڈھیر کی سی ہے جس کو سخت گرمی کے دن میں تیز آندھی لے اڑی ہو جس طرح اس راکھ کا کہیں پتہ نہیں ملتا اسی طرح ان کے نیک عمل ان کے کفر شرک کے مقابلہ پر راکھ کی طرح اڑ جاتے ہیں۔ پس یہ لوگ اپنی کمائی میں سے کچھ نہ پاویں گے یہی تو دور کی گمراہی کا نیجہ ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو سچے اور مضبوط نتیجہ خیز قانون سے پیدا کیا ہے پھر جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں سے استمداد کرتے ہیں یا اس سے سرے سے انکاری ہیں وہ گویا اللہ کو ایک عبث کھیلنے والا سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں پر بعد پیدائش بھی پورا قابو رکھتا ہے کہ اگر چاہے تو تم سب کو ہلاک کر دے اور تمہاری جگہ نئی ایک مخلوق لا بسائے اور یہ کام اللہ کے نزدیک کچھ مشکل نہیں خیر یہ تو دنیا میں اس کی حکومت ہے اور جس روز اللہ کے روبرو سب آ کھڑے ہوں گے تو اس کی حکومت اور ہبت کا رعب داب دیکھ کر ایک دوسرے کو الزام دیتے ہوئے ضعیف یعنی ماتحت لوگ بڑے متکبر لوگوں سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمہارے تابع تھے کیا اللہ کا عذاب دفع کرنے میں یہاں تم ہمارے کچھ کام آسکتے ہو وہ کہیں گے دنیا کی اتباع کا جو تم نے ذکر کر کے ہم پر الزام لگایا ہے سو اس کا جواب تو یہ ہے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو ہم تم کو ہدایت کرتے مگر اس بات میں وہ بالکل جھوٹ بولیں گے بدمعاش دنیا میں تو ایسے مست ہو رہے تھے کہ نبیوں کی تعلیم کی طرف دھیان کرنا ان کے خیال میں بھی نہ آتا تھا اور اگر کوئی ان کو یاد دلاتا تو نہایت ہی حقارت سے اسے رد کردیتے اللہ کی ہدایت اور کیا ہوتی ہے یہی کہ وہ اپنی طرف سے پاک تعلیم بھیجتا ہے جس میں سب لوگوں کا حصہ برابر ہوتا ہے جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں وہ نیک نتیجہ پاتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ برائیوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ اس جواب کے بعد اصل سوال کا جواب وہ یہ دیں گے کہ بھائیو ! یہ عذاب ٹلنے کا نہیں ہم گھبراہٹ کریں تو صبر کریں تو دونوں حالتیں ہم پر برابر ہیں کسی طرح ہم کو چھٹکارا نہیں ہوگا جب ادھر سے فارغ ہوں گے اور مخلوق میں فیصلہ ہوچکے گا جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل کئے جائیں گے تو شیطان سے استدعا کریں گے تو وہ کہے گا سنو ! اصل بات یہ ہے کہ اللہ نے جو تم سے سچا وعدہ کیا تھا اس نے تو پورا کردیا تم کو جہنم میں ڈال دے گا اور میں نے جو تم سے وعدہ کا تھا یعنی تمہارے دل میں برے کاموں کے نتائج نیک ڈالا کرتا تھا وہ میں نے پورا نہ کیا پورا کرتا بھی کیسے جب کہ مجھ میں طاقت ہی نہیں کہ تمہارے آڑے وقت کام آسکوں اور اگر سچ کہلانا چاہو تو میں آج صاف صاف کہتا ہوں کہ قصور سراسر تمہارا ہی ہے میرا تم پر کوئی زور نہ تھا میں تمہیں جبراً پکڑ کر بری مجلسوں میں نہ لے جاتا تھا البتہ اتنا تھا کہ تمہارے دل میں میں نے خیال ڈال کر تم کو بلایا تم نے میری بات کو قبول کرلیا اس میں میرا کیا قصور پس تم مجھ پر الزام نہ لگائو بلکہ اپنے آپ کو ملزم ٹھہرائو میں تمہارا فریاد رس نہیں تم میرے نہیں میں تو اس امر سے بھی منکر ہوں اور ہرگز نہیں مانتا کہ دنیا میں تم میرے سبب سے شرک کرتے تھے بلکہ تم خود شریر اور شریروں کے یار اور ہم نشین تھے نیک مجلسوں میں جانے سے جی چراتے تھے پس آج فرمان خداوندی کان کھول کر سنو ! کہ ظالموں بے فرمانوں کے لئے دکھ کی مار ہے