سورة الرعد - آیت 36

وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ ۖ وَمِنَ الْأَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ ۚ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جنہیں ہم نے کتاب دی (١) وہ تو جو کچھ آپ پر اتارا جاتا ہے اس سے خوش ہوتے ہیں (٢) اور دوسرے فرقے اس کی بعض باتوں کے منکر ہیں (٣) آپ اعلان کر دیجئے کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ شریک نہ کروں، میں اسی کی طرف بلا رہا ہوں اور اسی کی جانب میرا لوٹنا ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(36۔43) اور جن لوگوں کو ہم نے آسمانی کتاب کی سمجھ دی ہے یعنی اہل کتاب میں سے علماء راسخین وہ تیری طرف اتاری ہوئی کتاب قرآن شریف کے سننے سے خوش ہوتے ہیں اور بعض ان گروہوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اس کے بعض حصہ سے جو شرک۔ کفر۔ بت پرستی۔ قبرپرستی وغیرہ بداعمال سے متعلق ہے انکاری ہیں۔ تو ان سے کہہ میں اس تمہارے انکار سے گھبراتا نہیں۔ مجھے تو بس یہی حکم ہے کہ اللہ اکیلے کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائوں۔ اسی کی طرف میں تم کو بلاتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے۔ اور اگر غور کرو تو اسی لئے ہم نے اس قرآن کو عربی حکم کی شکل میں اتارا ہے۔ تاکہ یہ عرب کے باشندے اس پر غور کرسکیں۔ اور نتیجہ پاویں۔ مگر یہ نالائق ایسے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں کہ کسی کی سنتے ہی نہیں بلکہ تجھے بھی اپنا تابع کرنے پر لاحاصل سعی کرتے ہیں اور اے نبی اگر فرضاً بعد حصول علم اور سچے الہام پانے کے بھی تو ان کی خواہشوں پر چلا تو تیری بھی خیر نہ ہوگی ایسے بلا میں تو پھنسے گا کہ اللہ کے سوا نہ تیرا کوئی دوست ہوگا اور نہ بچانے والا جو اس بلا سے تجھے بچا سکے ان کے تو جتنے اغراض ہیں سب فضول اور لایعنی ہیں کبھی کہتے ہیں یہ رسول کھاتا پیتا کیوں ہے کبی کہتے ہیں اس کے بیوی بچے کیوں ہیں کبھی کہتے ہیں۔ یہ ہمارے منہ مانگے معجزے کیوں نہیں لاتا۔ غرض آئے دن ان کے نئی قسم کے اعتراض ہوتے ہیں حالانکہ ہم نے تجھ سے پہلے کئی ایک رسول بھیجے ہیں اور ان کو بیویاں بھی دیں اور اولاد بھی یہ باتیں رسالت سے کچھ منافی نہیں رسالت کی علامت تو صلاحیت اور تبتل الی اللہ ہے اور بس۔ نہ یہ کہ رسول انسانی خصلتوں سے پاک و صاف ہوجایا کرتے ہیں اور انسانیت سے اوپر کسی درجہ پر پہنچ کر جو چاہتے ہیں دکھایا کرتے ہیں ہرگز نہیں کسی رسول اور نبی کی شان اور طاقت نہیں کہ اللہ کے حکم کے سوا کوئی نشانی دکھا سکے ہر ایک چیز کا اختیار اسی ذات واحد کو ہے اور ہر ایک کام کے لئے ایک نہ ایک وقت لکھا ہوا ہے اور ہر ایک وقت کی اللہ کے ہاں لکھت ہے۔ ممکن نہیں کہ اس کے پہلے کوئی اس کو ایجاد کرسکے پھر بعد ایجاد اللہ ہی جس چیز کو چاہتا ہے فنا کردیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے مدت دراز تک ثابت اور موجود رکھتا ہے۔ اور وہ اس کرنے میں بھولتا نہیں کیونکہ اصل کتاب جس سے تمام کتابیں حاصل ہوتی ہیں یعنی علم الٰہی جو اس کی صفت خاصہ ہے اسی کے پاس ہے اس پر کوئی مطلع نہیں یہ لوگ جو تجھ سے ہر بات میں جلدی چاہتے ہیں اور تقاضا کرتے ہیں کہ جن باتوں کا تو ہم کو ڈر سناتا ہے ابھی سب کچھ دکھا دے یہ نہیں جانتے کہ اگر ہم بعض امور جن کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں تجھے بھی دکھاویں۔ یعنی تیری زندگی ہی میں ان کا وقوع ہوجیسے عرب کی فتح اور شیوع اسلام یا تجھے ان کے ظہور سے پہلے ہی فوت کرلیں جیسے دیگر ممالک کی فتح تو بہرحال تیری اس میں ذمہ داری نہیں کیونکہ تیرے ذمہ تو صرف تبلیغ ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ ہم خود ان سے پوچھ لیں گے کہ تم نے کن وجوہ سے حقانی تعلیم کا مقابلہ کیا۔ یہ مکہ والے جو ضد کرتے ہیں ان کو معلوم نہیں اور دیکھتے نہیں کہ ہم ان کی زمین کو جس پر یہ اکڑ بیٹھے ہیں چاروں طرف سے اشاعت اسلام کے ذریعہ دبائے چلے آتے ہیں جس سے ایک روز ان کا قافیہ ایسا تنگ کریں گے کہ دیکھنے والے کہیں گے کہ یہی مکہ ہے جس میں مسلمانوں کو سر چھپانے کی جگہ نہ تھی چنانچہ دن دھاڑے اسلامی لشکر نے بلا مزاحم فتح کرلیا۔ یاد رکھیں اب ان کے شمار کے دن آگئے ہیں اور اللہ جو چاہے حکم کرتا ہے جس کو چاہے فتح دیتا ہے جس کو چاہے شکست۔ اس کے حکم کی اپیل سننے والا اور رد کرنے والا کوئی نہیں اور وہ بہت جلد بدلہ دے سکتا ہے۔ اور انسے پہلے لوگوں نے بھی پیغمبروں کے مقابلہ پر دائو بازیاں کی تھیں۔ مگر وہ کچھ بھی نہ کرسکے کیونکہ تمام تدبیریں اللہ کے قبضے میں ہیں۔ وہی سب کا مالک ہے جب تک وہ کسی کام کی انجام دہی نہ چاہے ممکن نہیں ہوسکے گو اس نے انسان کو امور اختیار میں اختیار دے رکھا ہے تاہم ان کا اتمام اسی کے قبضہ میں ہے کسی بزرگ نے کیا ہی سچ کہا ہے عرفت ربی بفتح العزآئم وہ اللہ ہر ایک جاندار کے کاموں کو جانتا ہے اس سے کوئی امر پوشیدہ نہیں ظاہر کریں یا چھپ کر کسی کے بتلانے کی اسے حاجت نہیں اور ان کافروں کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ انجام بخیر کس کا ہے اور اس وقت تو کافر کہتے ہیں کہ اے محمد تو اللہ کا رسول نہیں مگر جب رسالت کا ظہور پورے طور پر ہوا تو ان کو معلوم ہوجائے گا تو ان سے کہہ دے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ کافی ہے وہ ایسی طرح میری سچائی کا اظہار کرے گا کہ سب لوگ جان لیں گے کہ یہ کام طاقت انسانی سے بالا ہیں بلکہ ع ” کوئی محبوب ہے اس پردۂ زنگاری میں“ اور جن لوگوں کے پاس آسمانی کتاب کا علم ہے۔ وہ بھی مرنے دعوے کے گواہ ہیں ان سے بھی دریافت کرلو وہ باوجود میری مخالفت کے تم سے صاف صاف کہہ دیں گے اور اگر نہ کہیں گے تو زمانہ کی رفتار ان سے خود کہلوا لے گی ان سے پوچھ لو کہ کتاب استثناء کے ١٨ باب کا مصداق اور یوحنا کے اباب کی ١٩ والا اور نیز ٤ اباب کی ١٥ وغیرہ والا کون ہے