وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَخَاهُ ۖ قَالَ إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
یہ سب جب یوسف کے پاس پہنچ گئے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ میں تیرا بھائی (یوسف) ہوں پس یہ جو کچھ کرتے رہے اس کا کچھ رنج نہ کر (١)۔
(69۔96) خیر یہ تو جو ہوا سو ہوا یوسف کے بھائی جب یوسف ( علیہ السلام) کے پاس آئے تو انہوں نے اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس جگہ دی اور چپکے سے کہہ دیا کہ میں تیرا بھائی یوسف ہوں۔ پس تو ان کے کاموں سے جو تیرے ساتھ بے التفاتی کرتے آئے ہیں۔ رنجیدہ مت ہو پھر جب حسب دستور ان کی بوریاں بندھوانے کا حکم دیا تو اپنے بھائی کی بوری میں کٹورا رکھ دیا پھر چپکے سے انسپکٹر پولیس کو اس کی تلاش کا حکم دیا تو ایک پکارنے والے نے پولیس کی طرح مقدمہ ١ ؎ بنانے کو پکاردیا کہ اے قافلے والو ! تم چور ہو یوسف ( علیہ السلام) کے بھائیوں نے پھر کر پوچھا کہ تمہارا کیا کھویا گیا ہے؟ سپاہیوں نے کہا کہ سرکاری برتن کٹورا پانی پینے کا ہمیں نہیں ملتا اور سرکار کا اشتہار ہوچکا ہے کہ جو کوئی اسے لائے اس کو اونٹ کے بوجھ جتنا غلہ ملے گا اور میں انسپکٹر پولیس اس کا ضامن ہوں کہ دلا دوں گا۔ یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی یہ سن کر بولے کہ واللہ تم جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے اور نہ ہم چور ہیں بلکہ شریف خاندانی ہیں سپاہیوں نے کہا اگر تم جھوٹے نکلے تو اس (چور) کی کیا سزا ہے بولے جس کے اسباب سے وہ نکلے وہی اس کی سزا ہے یعنی اسے ہی تم نے رکھ لینا وہ تمہارا ہمیشہ کو غلام ہوگا ہم ظالموں چوروں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں یہ بات بھی صرف من گھڑت انہوں نے کہی تھی ورنہ شریعت میں یہ سزا نہ تھی جب یہ قرارداد یوسف ( علیہ السلام) کے بھائیوں میں اور سرکاری آدمیوں میں ہوچکی تو یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے بھائی کے تھیلے سے پہلے ان کے تھیلوں اور بوروں کو کھلوایا پھر جب ان سے کچھ نہ نکلا تو تلاش کرتے کرتے اپنے بھائی کے تھیلے سے نکال لیا۔ اسی طرح ہم نے یوسف ( علیہ السلام) کو ڈھب سکھایا تھا کہ بھائیوں سے اقرار لے کر بنیامین کو رکھ سکے ورنہ بادشاہ کے قانون متعلقہ چوری کے مطابق وہ اپنے بھائی کو اپنے پاس نہ رکھ سکتا تھا مگر جو اللہ چاہتا تو اس قانون ہی میں ترمیم ہوجاتی ہم نے جس طرح یوسف ( علیہ السلام) کو عزت دی اسی طرح جس کو چاہتے ہیں علم اور دانش کے ذریعہ سے بلند رتبہ کردیتے ہیں یہ ترقی مراتب کچھ اسی زمانہ سے خاص نہ تھی اب بھی ہر ایک امر میں پائی جاتی ہے کہ ایک سے دوسرا برتر ہے اور ہر ایک علمدار سے بڑھ کر دوسرا علمدار ہے غرض کوئی شخص اپنے علم اور لیاقت پر نازاں ہو کہ مجھ جیسا کوئی تو یہ اس کی فاش غلطی ہے خیر مختصر یہ کہ کٹورا جب بنیامین کے تھیلے سے نکلا اور وہ نادم ہوئے تو بولے کہ اگر اس بنیامین نے سرکاری برتن کی چوری کی ہے تو تعجب کی بات نہیں کیونکہ اس سے پہلے اس کے بھائی یوسف ( علیہ السلام) نے بھی ایک دفعہ چوری کی تھی دراصل ان کی ماں کی طرف سے خرابی آئی ہے مگر یہ بھی ان کا محض افترا ہی افترا تھا۔ ورنہ نہ تو یوسف ( علیہ السلام) نے کبھی چوری کی تھی نہ کچھ اور بات تھی یوسف نے اس کلمہ کو بھی چھپا رکھا اور ان کے سامنے اس کو نہ دھرایا ایسا کہ گویا سنا بھی نہیں اتنا کہا کہ تم بڑے نالائق ہو ہرگز اس قابل نہیں کہ تمہاری عزت کی جائے تمہارا بیان کہ اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی اللہ کو خوب معلوم ہے خیر اس سے فارغ ہو کر عرض کرتے ہوئے کہنے لگے اے عزیز اس کا باپ نہایت بوڑھا ہے اور اس سے اسے بہت ہی محبت ہے پس تو ہم میں سے کسی کو اس کے عوض میں رکھ لے ہم تجھے محسن جانتے ہیں مخلوق کے حال پر تجھے بڑا رحم آتا ہے جب ہی تو تو نے اتنا کچھ غلہ وغیرہ کا انتظام کر رکھا ہے اس بوڑھے پر بھی اگر احسان کرے تو طبع فیاض سے بعید نہیں یوسف ( علیہ السلام) نے کہا معاذ اللہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ اللہ پناہ دے کہ ہم اس شخص کو چھوڑ کر جس کے پاس سے ہمیں اپنی چیز ! ملی ہے کسی دوسرے کو لیں فوجداری مقدمات کی سزا بھگتنے میں مجرم کا کوئی وکیل نہیں ہوا کرتا تمہاری ایسی عقل پر پتھر اگر ہم ایسا کریں گے تو فوراً ہم ظالم ٹھہریں گے جس نے جرم کیا ہو اسے چھوڑ دیں (جن لوگوں نے اس چوری کے بتانے میں مصنوعی حکائتیں لکھی ہیں محض تکلف ہیں ایسے غلط گوئوں کی بابت جیسے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی تھے ایسے تکلفات کے مرتکب ہونا بلا ضرورت ہے۔ ١٢) اور غیر مجرم کو پکڑ لیں پھر جب اس سے ناامید ہوئے تو اس بارے میں مشورہ کرنے کو الگ ہو بیٹھے ان میں بڑے بھائی نے کہا تم جو بنیامین کو چھوڑ کر جانا چاہتے ہو کیا تمہیں معلوم نہیں تمہارے باپ نے تم سے اللہ کے نام کا مضبوط عہد لیا ہوا ہے اور اس سے پہلے جو یوسف ( علیہ السلام) کے بارے میں تم نے قصور کیا ہوا ہے وہ بھی تم کو معلوم ہے میری غیرت تو اجازت نہیں دیتی کہ میں یہاں سے جائوں پس میں تو ہرگز اس زمین مصر کو نہ چھوڑوں گا جب تک میرا باپ مجھے اجازت نہ دے یا اللہ تعالیٰ میرا فیصلہ نہ کرے کہ بنیامین مجھے مل جائے وہی سب سے اچھا فلہصل کرنے والا ہے تم سب باپ کے پاس جائو اور صحیح صحیح واقعہ بیان کرو اسے کہو کہ بابا ! تیرے بیٹے بنافمین نے چوری کی ہے اور وہ اس جرم میں ماخوذ ہے اصل حقیقت تو اللہ کو معلوم ہے ہم تو اسی بات کی گواہی دیتے ہیں جو ہمیں معلوم ہے الغیب عنداللہ ہم غیب تو جانتے نہیں اللہ معلوم اس امر کی تہہ میں کیا راز ہے کیونکہ بنیامین کی نسبت ہمارا بھی یہ گمان نہیں اور اگر تو ہماری تصدیق چاہتا ہے تو بے شک اس بستی (مصر) کے لوگوں سے پوچھ لے جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے دریافت کرلے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں اور ہم سے پوچھے تو ہم قسمیہ کہتے ہیں کہ ہم سچے ہیں۔ غرض اسی رائے پر سب متفق ہوگئے اور مصر سے چل کر کنعان اپنے وطن میں آئے اور باپ سے اسی طرح عرض کیا جیسا کہ بڑے بھائی نے کہا تھا باپ نے سنتے ہی کہا کہ بنیامین کی چوری کا تو تمہیں بھی اعتبار نہیں اور نہ ہی واقع میں ہوگی البتہ تم دل میں اس کی جدائی سے رنجیدہ نہیں بلکہ خوش ہو۔ کیونکہ یہ بات تمہیں بھلی معلوم ہوئی ہے اور مدت کی تمہاری تمنا بر آئی کہ تمہارا ایک محسود مفقود الخبر ہوا اور دوسرا ملزم ٹھیرا میرا کام تو صبر و شکر ہے میں اللہ سے بے امید نہیں امید ہے کہ اللہ ان سب کو یعنی یوسف ( علیہ السلام) بنیامین اور ان کے بڑے بھائی کو جو مصر میں ندامت کے مارے بیٹھ رہا ہے میرے پاس لاوے گا اور میری ان سے ملاقات ہوگی بے شک وہی سب کچھ جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے یہ جواب دیا اور ان سے روگردانی کر کے کہنے لگا ہائے یوسف ( علیہ السلام) کے حال پر اور اس قدر یوسف کے فراق میں روتا تھا کہ اس کی آنکھیں مارے غم کے سفید بے نور ہوگئی تھیں اور وہ جی ہی جی میں غصہ دبایا کرتا تھا گھر والوں نے جب اتنے سال بعد بھی یوسف کا نام سنا تو بولے کہ اللہ کی قسم تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتا رہے گا حتی کہ قریب الموت ہوجائے بلکہ مر ہی جائے بھلا آج تک اتنے سالہائے سال کے عرصہ میں تیری آہ و بکا کا کیا نتیجہ ہوا ہے جواب ہوگا مانا کہ بیٹے کا صدمہ بڑا ہوتا ہے مگر آخر اس کی کوئی حد بھی ہے یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اپنی تکلیف اور غم کا اظہار اللہ ہی کے سامنے کرتا ہوں تمہیں تو نہیں سناتا کہ تم اس سے تنگ آرہے ہو میں کیا کروں میرے دل سے نکلتی ہے بیا کہ باتو بگوئم غم ملالت دل چرا کہ بے تو ندارم مجال گفت و شنید اور مجھے اللہ کی طرف سے کئی ایک باتیں ایسی بھی معلوم ہیں جو تم کو معلوم نہیں مجھے اس کے خواب سے پختہ یقین ہے کہ وہ سرفراز ہوگا بلکہ ہوچکا ہوگا پس اے میرے بیٹو ! اگر میرے فرمان بردار ہو تو ایک دفعہ میرے کہنے پر پھر جائو اور یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کرو اور پتہ لگائو اور اللہ کی رحمت سے بے امید نہ ہو کیونکہ اللہ کی رحمت سے سوائے کافروں کے کوئی بے امید نہیں ہوتا یعنی اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا شعار کفار ہے خیر اللہ اللہ کر کے وطن سے چلے اور مصر میں پہنچے اور یوسف ( علیہ السلام) نے اطلاع پا کر ان کو بلایا پس جب یوسف کے پاس حاضر ہوئے تو گذشتہ سب باتیں بھول گئے اور اپنی ہی رام کہانی کہنے کو بولے اے عزیز ! ہم کو اور ہمارے اہل و عیال کو سخت مصیبت پہنچی ہے اور ہم کچھ تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں تو اپنی مہربانی سے برما منگر بر کرم خویش نگر پس آپ مثل سابق ہم کو پورا غلہ دلوا دیجئے اور جس قدر قیمت ہماری کم ہے اس قدر اللہ کے نام کی ہمیں خیرات دیجئے کیونکہ اللہ تعالیٰ خیرات دینے والوں کو نیک بدلہ دیا کرتا ہے اللہ کی شان یہی یوسف ہے اور یہی یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی جنہوں نے اس کو کنوئیں میں ڈالا تھا شیخ سعدی مرحوم نے کیا ہی سچ کہا ہے مہا زور مندی مکن بر کہاں کہ بریک نمط می نماند جہاں یوسف ( علیہ السلام) نے بھائیوں کا الحاح اور گھر کی تباہی کا حال جب سنا تو اس سے ضبط نہ ہوسکا تو نہایت نرم لفظوں میں ان سے کہا کہ جو کچھ تم نے یوسف ( علیہ السلام) اور اس کے بھائی سے جہالت میں کیا تھا تمہیں کچھ معلوم ہے ان کو پہلے سے باپ کے کہنے سے کچھ شبہ تو تھا ہی جھٹ سے بولے کیا تو ہی یوسف ( علیہ السلام) ہے اس نے کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے ہم پر بڑا ہی احسان کیا جو کوئی اس سے ڈرتا اور مصیبت کے وقت صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے بھلے آدمیوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتا بولے واللہ اللہ نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور ہم قصوروار ہیں تو ہمارے قصور معاف کر یوسف ( علیہ السلام) نے کہا اگر میں تم سے بدلہ لینے کو ہوتا تو اس سے پہلے تم کئی دفعہ آئے اسی وقت لے لیتا آج تم پر کسی طرح کا الزام نہیں کیونکہ جو کچھ تم نے کیا بحکم گرچہ تیر از کماں ہمے گذرد از کماں دار داند اہل خرد میں اس کو اس احکم الحاکمین کی طرف سے جانتا ہوں پس اللہ تمہیں بخشے وہی سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے یہ میرا کرتہ لے جائو اور میرے باپ کے چہرے پر اسے ڈال دو انشاء اللہ تعالیٰ وہ سنواکھا ہوجائے گا اور اپنے تمام اہل و عیال کو میرے پاس یہاں لے آئو کیا ضرورت ہے کہ بار بار غلہ ڈھونے کی تکلیف کرو یہاں پر اللہ کے فضل سے سب کچھ میسر ہے خیر صلح صفائی سے فارغ ہو کر حسب الحکم یوسف کے پاس سے چلے اور جب قافلہ ان کا مصر سے چلا تو ان کے باپ یعقوب (علیہ السلام) نے بوجہ صفائی قوت دراکہ کے گھر والوں سے کہا اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ کہو تو میں سچ کہتا ہوں کہ مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے گھر والوں نے کہا اللہ کی قسم تو اسی اپنی قدیمی غلطی میں ہے بھلا اتنے سال یوسف کو مرے ہوئے ہوگئے ایک ایک ہڈی اس کی کا کہیں پتہ نہ ہوگا آج تجھے یوسف کی مہک آتی ہے سبحان اللہ ایں چہ بوالعجبی ست پھر جب حسب الحکم یوسف کے بھائی مصر سے چل کر قریب کنعان پہنچے اور خوشخبری دینے والا ان سے پہلے تھوڑی مدت یعقوب کے پاس آیا اور آتے ہی اس یوسف ( علیہ السلام) کے کرتہ کو اس کے چہرے پر ڈال دیا تو وہ اسی وقت سوانکھا ہوگیا فوراً اس کے آنسو سوکھ گئے اور آنکھیں روشن ہوگئیں تو اس نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کے بتلانے سے وہ باتیں بھی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے