لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ
یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں دریافت کرنے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں (١) ہیں۔
(7۔21) کچھ شک نہیں کہ یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائیوں کے قصے میں دریافت کرنے والوں کے لئے بہت سے نشان ہیں اس لئے مناسب ہے کہ باپ سے تو کچھ نہ کہو یوسف کو مار ڈالو یا کسی دور دراز گہن جنگل میں پھنکے دو جب وہ سامنے سے دفع ہوجائے گا تو والد کی توجہ بالکل تمہاری طرف ہی رہے گی اور اگر بے گناہ کے قتل یا ایذا سے تمہیں گناہ کا خوف ہو تو اس سے پیچھے تم توبہ کر کے نیک اور صالح بن جانا۔ ایک بھائی نے ان میں سے رائے دیتے ہوئے یہ کہا کہ بے گناہ مار ڈالنے سے تو کلیجہ کانپتا ہے علاوہ اس کے تمہارا مطلب کچھ اس کے قتل ہی سے وابستہ نہیں وہ تو صرف اس کی غیبوبت سے بھی حاصل ہوسکتا ہے پس تم یوسف کو قتل نہ کرو اور اگر تم کچھ کرنا چاہتے ہو تو اس کو کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دو کہ کوئی راہ چلتا مسافر اس کو نکال لے گا اور اپنے ساتھ لے جا کر کہیں بیچ دے گا چنانچہ اس تجویز پر سب متفق ہوگئے مگر چونکہ یوسف ( علیہ السلام) کا باہر لے جانا بغیر اطلاع باپ کے ناممکن تھا باپ سے درخواست کرتے ہوئے بولے بابا ! کیا وجہ کہ تم یوسف ( علیہ السلام) کے حق میں ہمارا اعتبار نہیں کرتا کہ ہمارے ساتھ اسے بھی باہر جنگل کو نہیں بھیجتا حالانکہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں کل اس کو ہمارے ساتھ ذرا بھیج کہ جنگل میں پھل پھول کھائے پئے اور کھیلے کودے اور اگر درندوں سے خوف ہو تو ہم اس کے محافظ ہیں یعقوب ( علیہ السلام) نے کہا تمہارا اس کو لے جانا مجھے شاق ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ تمہاری غفلت میں اسے بھیڑیا نہ کھا جائے وہ بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے بولے کہ بھلا جس حال میں ہم ایک جماعت ہیں اگر ہماری موجودگی میں بھی بھیڑیا اسے کھا جائے تو پھر ہم تو سخت زیاں کار اور نکمے ٹھہرے چنانچہ حضرت یعقوب ان کی باتوں میں آگئے اور جانے کی اجازت دے دی پس جب وہ اسے لے گئے اور اس امر پر متفق ہوگئے کہ اس کو اندھے کنوئیں میں پھینک دیں تو جو کچھ وہ سوچ رہے تھے وہ کر گذرے یعنی اندھے کنوئیں میں یوسف کو انہوں نے پھینک دیا ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے بچایا اور ہم (اللہ) نے اسے سمجھایا کہ تو ان کو ان کے اس فعل سے اطلاع دے گا اور وہ اس وقت بے خبر ہوں گے تیری زندگی اور اس ترقی کا جس پر تو اس وقت ہوگا اس کو وہم و گمان بھی نہ ہوگا خیر جو کچھ انہوں نے کرنا تھا کر گذرے اور بہانہ جوئی کرنے کو روتے ہوئے رات کو باپ کے پاس آئے کہنے لگے بابا ! ہم کبڈی کھیلنے میں مشغول ہوئے اور یوسف ( علیہ السلام) کو اپنے اسباب کے پاس بٹھا گئے تو ہماری غیبوبت میں اسے بھیڑیا کھا گیا اور یہ تو ہمیں یقین ہے کہ تو ہماری بات ماننے کا نہیں گو ہم سچے بھی کیوں نہ ہوں اور اپنی بات کو یقین دلانے کو اس کرتے پر جھوٹ موٹ بکری کا خون بھی لگا لائے یعقوب ( علیہ السلام) نے خون کی رنگت دیکھ کر اور فراست سے ان کی چالاکی سمجھ کر کہا کہ بھیڑئیے نے تو کھایا نہیں بلکہ تمہارے شریر اور حاسد نفسوں نے یہ کام تمہاری نظر میں مزین کر دکھایا خیر اب میں یوسف کی جدائی پر صبر شکر کروں گا اور تمہارے بیان پر کہ بھیڑیا اسے کھا گیا اللہ سے مدد مطلوب ہے کہ وہ مجھے صبر عطا کرے اللہ کی قدرت ادھر تو انہوں نے یوسف کو کنوئیں میں ڈالا اور ادھر حکیم مطلق کی حکمت سے سوداگروں کا ایک قافلہ آ نکلا انہوں نے اسی کنوئیں پر اپنا سقا پانی لینے کے لئے بھیجا اس نے ڈول اس کنوئیں میں لٹکایا تو یوسف ( علیہ السلام) نے اول ڈول کو پکڑ لیا اس نے جھک کر بغور دیکھا تو ایک خوش شکل لڑکا اسے نظر آیا تو بولا آہا واہ جی ! یہ تو لڑکا ہے آخر اس نے اپنے ہمراہیوں کو خبر کی تو انہوں نے مل کر اسے کنوئیں سے نکالا اور بڑی قیمتی چیز بنا کر اسے چھپا رکھا اور دل میں اسے بیچنے کا مصمم ارادہ کرچکے لیکن جو کچھ وہ کر رہے تھے اللہ کو خوب معلوم تھا آخر یہ ہوا کہ وہ اسے مصر میں لائے اور دل میں اس امر سے خائف تھے کہ شائد کوئی شہزادہ نہ ہو اسی ڈر کے مارے انہوں نے اسے بہت کم داموں یعنی چند درہموں آج کل کے حساب سے دو اڑھائی روپیہ پر بچہ دیا اور وہ اس سے بے رغبت تھے کیونکہ اس کی ظاہری شکل و شباہت ان کو شبہ میں ڈال رہی تھی کہ مبادا کوئی امیر زادہ ہو تو بجائے فائدہ کے الٹا ضرر نہ ہو مصر میں جس وزیر مصر نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ یہ لڑکا شریف زادہ ہونہار معلوم ہوتا ہے اس کو اچھی طرح رکھنا امید ہے کہ بے وفا نہ ہوگا بلکہ ہمیں نفع دے گا یا ہم اس کو لے پالک بیٹا بنا لیں گے اسی طرح بتدریج ہم (اللہ) نے یوسف کو ملک مصر میں جگہ دی کہ آزمودہ کار ہو اور چونکہ اس نے حکومت کے صیعد پر پہنچنا تھا ہمیں منظور تھا کہ اسے گہری باتوں کا انجام اور رموز سلطنت کی تہہ تک پہنچنا سکھائیں تاکہ وہ پاس ہو کر اس عہدہ کو عمدہ طور سے نباہ سکے اور اللہ جو چاہتا ہے کرسکتا ہے کیونکہ وہ اپنے کام پر غالب ہے کوئی اسے روک نہیں سکتا لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے وہ محض جہالت سے اللہ کے ہوتے ہوئے غیروں سے بیم و رجا کرنے لگ جاتے ہیں ایسے ہی نادانوں کے سمجھانے کو کسی اہل دل نے کہا ہے بہت مدت کے سوتے اب تو جاگو اللہ کے ہوتے بندوں سے نہ مانگو جن مفسروں کی راے ہے کہ یہ بیچنے والے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی تھے صحیح نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف بیچنے والوں کا ذکر کیا ہے تو ساتھ ہی خریدنے والوں کا قول نقل کیا ہے اور یہ تو یقینی امر ہے کہ مشتری مصری تھا پس ضرور ہے کہ بیع مصر میں ہوئی ہوگی نیز سیاق کلام میں یوسف ( علیہ السلام) کے بھائیوں کا ذکر بھی نہیں۔ فافھم