وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ
اور اگر آپ کا رب چاہتا تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے (١) تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرسکتے ہیں یہاں تک کہ وہ مومن ہی ہوجائیں۔
(99۔109) اور ایک تسلی کی بات سن اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کے سب باشندے ایماندار ہوجاتے کیا کسی کی مجال تھی کہ اس کے چاہے کو پھیر سکتا تو جو اتنا رنجیدہ خاطر ہوتا ہے کیا تو لوگوں پر جبر کرے گا کہ وہ ایماندار بن جائیں حالانکہ تیرے جبر سے کچھ نہ ہوگا کیونکہ کوئی شخص بھی اللہ کی توفیق کے بغیر ایمان نہیں لاتا اللہ کی توفیق یہ ہے کہ اپنا نیک و بد سوچیں اور جو سوچیں ہی نہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر بے سمجھی کی نجاست ڈالتا ہے جو اس کی دی ہوئی عقل سے کام نہیں لیتے بھلا یہ بھی کوئی عقل سے کام لینا ہے کہ دنیا کے دھندوں میں تو ایسے پھنسے رہیں کہ مغرب سے مشرق کو اور مشرق سے مغرب کو مال تجارت پہنچا رہے ہیں اور روپیہ کمانے کے تمام نشیب و فراز سوچ رہے ہیں جہاز رانی کے لئے طرح طرح کے ہوا اور موسم شناسی کے آلات مہیا کر رکھے ہیں مگر اتنا خیال جی میں نہیں جم سکتا کہ اس کشتی کی طرح ایک روز ہمارا بھی کوچ ہے ہم کس جہاز پر بیٹھیں گے اور حسب حیثیت کس درجہ کا ٹکٹ ہم کو چاہئے ایسے لوگوں سے تو کہہ کہ غور تو کرو کہ آسمانوں اور زمینوں میں کیا کیا عجائب چیزیں ہیں کس نے ایسے مضبوط ڈھانچ پر ان کو چلایا ہے بے شک جس نے ان کو ایسے ڈھانچ پر چلایا ہے بہت ہی بڑی قدرت کا مالک ہے اسی کے ہو رہنے سے سب کچھ مل سکتا ہے اس سے علیحدہ ہونے میں ہر طرح کی ذلت ہے تم نے شیخ سعدی مرحوم کا قول نہیں سنا عزیزیکہ ازدر گہش سربتافت بہرو رکہ شد ہیچ عزت نیافت اور یاد رکھو کہ اس کے حکموں سے سرتابی کرتے ہوئے ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ انسان سے توفیق خیر چھن جاتی ہے اور ایسے بے ایمانوں کو نہ تو اللہ کی قدرت کے نشان اور نہ اس کی طرف سے ڈرانے والے کچھ کام دے سکتے ہیں یعنی ان کو نہ تو کسی نشانی سے ہدایت ہوتی ہے اور نہ کسی رسول اور واعظ کی تعلیم سے پس یہ لوگ تیرے مخالف جواب ایمان نہیں لاتے تو گویا صرف اپنے سے پہلے لوگوں کے سے واقعات کے منتظر ہیں کہ جس طرح ان کو عذاب پہنچا انہیں بھی پہنچے گا تو یہ ایمان لاویں گے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ان سے کہہ کہ اچھا انتظار کرلو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ کافر جب نبیوں کے مقابلہ پر بضد ہی رہتے ہیں تو ہم ان پر عام عذاب بھیجا کرتے ہیں پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان داروں کو اس عذاب سے بچا لیا کرتے ہیں بے شک ہم اسی طرح کرتے ہیں کیونکہ ایسے عذابوں سے ایمانداروں کو بچانا ہمارا ذمہ ہے جب تک ایماندار اپنے ایمان پر پختہ رہیں گے ہم بھی اپنے وعدہ پر پختہ ہیں تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک اور بات بھی ان سے کہہ کہ لوگو ! اگر تم میرے دین کی نسبت شک میں ہو تو خیر مجھے بھی اس کی پرواہ نہیں سنو میں اپنا عقیدہ بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو اور دعائیں مانگتے ہو میں تو ان کی عبادت اور ان سے دعا نہ کروں گا ہاں میں اللہ اکیلے کی عبادت بے شک کرتا ہوں جو تمہارے ظاہر کے علاوہ تمہارے باطنی حواس پر بھی قبضہ تام رکھتا ہے ایسا کہ تمہیں وقت پر مار دیتا ہے اس وقت چاہے تم کیسی تدبیریں کرو ایک بھی پیش نہیں جاتی اور مجھے یہ بھی حکم ہے کہ میں اسبات پر ایمان رکھنے والوں کی جماعت سے بنوں اور مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی حکم فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو سچے دین پر یک طرفہ ہو کر اپنے آپ کو قائم رکھ اور ادھر ادھر ڈانواں ڈول ہونے سے مشرکوں میں نہ مل جائیو اور اللہ کے سوا کسی چیز کو نہ پکاریو جو نہ تجھے نفع دے سکے اور نہ ضرر پر یاد رکھ کہ اگر یہ کام تو نے کبھی کیا یعنی اللہ کے سوا کسی چیز کو بغرض استمداد یا بطور عبادت پکارا تو فوراً تو بھی ظالموں میں شمار ہوگا اور جو لوگ اللہ کے سوا غیروں کی عبادت یا دعائیں کرتے ہیں ان کی غرض یہی ہوتی ہے کہ کی طرح سے ہماری تکلیف دفع ہویا کسی قوم کا فائدہ پہنچے سو تو اس خیال کو دل سے نکال رکھ اور یہ بات دل میں جما رکھ کہ اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی بھی اس کو ہٹانے والا نہیں اور اگر وہ تیرے حق میں بہتری چاہے تو اس کے فضل کو تجھ سے کوئی پھر نہیں سکتا اپنے بندوں سے جس پر چاہتا ہے اپنے فضل خاص سے حصہ پہنچا دیتا ہے اور وہ باوجود بندوں کی سرکشی اور ہوا پرستی کے بڑا ہی بخشنہار مہربان ہے بے شک تو بلند آواز سے کہہ دے کہ اے لوگو ! ایسے خدائے رحیم کو چھوڑ کر تم کیوں ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہو اب کس امر کی دیر ہے تمہارے پروردگار سے سچی تعلیم آچکی ہے پس سن رکھو کہ جو کوئی ہدایت پاوے گا وہ اپنے ہی نفس کے لئے ہدایت پاوے گا اور جو گمراہی اختیار کرے گا وہ اپنے ہی پر و بال لے گا اور میں تم پر نگہبان یا افسر نہیں ہوں کہ تمہارے کاموں سے مجھے سوال ہو یہ تو ان کو سنا دے اور خود تو بھی اس تعلیم کی جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے پیروی کر اور اس پیروی کرنے اور لوگوں کو سنانے پر جو تکالیف شاقہ مخلوق کی طرف سے تجھے پہنچیں ان پر صبر کر جب تک اللہ تم میں فیصلہ کر دے کیونکہ اسے سب کچھ معلوم ہے اور وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین