وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس رات مزید سے ان تیس راتوں کو پورا کیا۔ سو ان کے پروردگار کا وقت پورے چالیس رات کا ہوگیا (١) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میرے بعد ان کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بد نظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا (٢)
(142۔171) اور محض تمہاری بہتری کو ہم نے حضرت موسیٰ سے کتاب دینے کے لئے تیس یوم کا وعدہ کیا اور دس روز ان کے ساتھ اور بڑھائے تو وعدہ الٰہی پورا چالیس روز کا ہوا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ چونکہ اب تم فرعون سے چھوٹ کر ایک آزاد قوم ہوگئے ہو۔ اس لئے تمہارے دینی اور دنیاوی حاجتوں کے لئے کسی قانون الٰہی کی ضرورت ہے۔ پس تو پہاڑ پر آکر ایک مہینا مخلوق سے بالکل علیحدہ ہو کر تزکیہ نفس میں مشغول ہوجا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ نے ایسا ہی کیا۔ ایک مہینا گذر گیا اور ہنوز ترقی کمال مناسب میں کچھ کمی تھی اس لئے اور دس روز بڑھائے گئے اور چلتے وقت موسیٰ اپنے بھائی ہارون سے کہہ گیا تھا کہ میری قوم میں میری نیابت کیجئیو اور ان کی اصلاح کرتے رہیئو اور ہوشیار رہیو کہ ہمیشہ اصلاح سے مفسدوں کو رنج ہوتا ہے بلکہ جو مصلح اصلاح کرنا چاہے یہ کمبخت اس کے بھی مخالف ہوجاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مصلح ان کے ہمرائے ہو رہیں پس تو ہوشیار رہیو کہ ان کی راہ اور روش پر نہ چلیو یہ کہہ کر حضرت موسیٰ قوم سے رخصت ہو کر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق جب کوہ طور پر چلہ کشی کو آیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سے کلام کیا تو مارے محبت کے موسیٰ نے بے تاب ہو کر کہا میرے مولا ! چونکہ یہ صحیح ہے کہ نہ تنہا عشق از دیدار خیزد بساکیں دولت از گفتار خیزد اس لئے میں غلبۂ شوق سے مجبور ہوں پس تو مجھے اپنا دیدار کرا کہ میں تجھ کو دیکھوں اللہ تعالیٰ نے کہا تو مجھ کو ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ تیری اور میری نسبت کیا؟ بھلا ممکن ہے کہ مخلوق خالق کو دیکھ سکے لیکن اگر تو زیادہ اس بات کو چاہتا ہے تو پہاڑ کی طرف نظر رکھ اگر جلوہ الٰہی سے وہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو سمجھیو کہ تو بھی مجھے دیکھ سکے گا اور اگر وہ اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکا تو تو اس سے سمجھ لو کہ تو بھی نہ دیکھ سکے گا۔ پس اس قرارداد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جب پہاڑ کی جانب پر ذرا سا جلویٰ کیا اور ذرا سا نور ڈالا تو اس جانب کو ریزہ ریزہ کردیا۔ اور موسیٰ بھی بے ہوش ہو کر گر پڑا پھر جب ہوش میں آیا تو بولا کہ میرے مولا ! تو جسم جسمانیت سے پاک ہے میں تیرے سامنے تائب ہوں اور میں اس بات پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں کہ دنیا میں تجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا اے موسیٰ بنی آدم کے لئے جتنے مراتب علیاممکن ہیں ان سب میں سے درجہ رسالت اعلیٰ ہے سو میں نے تجھے اپنی رسالت اور ہم کلامی سے سب لوگوں سے برگزیدہ کیا۔ پس جو کچھ میں نے تجھے دیا ہے وہ مضبوط پکڑ اور شکر گذاروں میں ہو۔ اور ہم نے اس کے لئے ان تختیوں میں جن میں موسیٰ کو توریت دی تھی ہر قسم کی نصیحت اور ہر ایک مذہبی بات کی تفصیل لکھ دی تھی۔ پس اے موسیٰ تو اس کو قوت اور مضبوطی سے پکڑیو اور اپنی قوم کو حکم کیجئیو کہ اچھی طرح اس کو پکڑے میں عنقریب تم کو تھوڑی سی مدت بعد فرعونی بدکاروں کا ملک مفتوحہ حالت میں دکھائوں گا۔ ) بنی اسرائیل فرعون کے ڈوبتے ہی تو ملک مصر کو لوٹے نہ تھے کیونکہ چالیس سال ایک ہی میدان میں گھومتے پھرنا تو نص قرآنی سے ثابت ہے۔ ہاں بعد ترقی مصر پر بھی قابض ہوگئے ہوں گے۔ اسی لئے ہم نے تھوڑی مدت کی قید لگائی ہے۔ (منہ) ( اور تم کو اس کا مالک بنائوں گا اور جو لوگ زمین پر ناحق بڑائی کرتے اور پھولے پھرتے ہیں ان کو اپنے حکموں سے پھیر دوں گا اگرچہ ہر قسم کے نشان اور معجزے بھی دیکھیں۔ تو بھی ان پر ایمان نہ لائیں گے۔ ہاں یہ ہوگا کہ بہکتے جائیں گے اور اگر ہدایت کی راہ دیکھیں تو اس پر نہ چلیں گے اور اگر گمراہی کی راہ دیکھ پائیں گے تو جھٹ سے اس کو اپنی راہ بنا لیں گے کیونکہ وہ ہمارے حکموں سے تو انکاری اور بے پرواہ ہوں گے اور یہ اعلان بھی ان کو سنا دیجیو کہ جو لوگ ہمارے حکموں کی تکذیب کریں گے اور آخرت کی زندگی سے منکر ہوں گے ان کے نیک عمل سب کے سب باطل ہوجائیں گے اور جو کچھ کفر و شرک۔ تکبر۔ غرور وہ کرتے ہوں گے اسی کا بدلہ ان کو ملے گا۔ کوئی ناکردہ گناہ ان پر نہ ڈالا جائے گا۔ ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کتاب لینے گیا ادھر اس کی قوم نے اس سے پیچھے اور ہی گل کھلائے کہ کم بختوں نے اپنے زیورات سے ایک بچھڑا بنا لیا۔ وہ کیا تھا محض ایک آواز دار جسم تھا کہ سامری نے اس کو ایسا کھوکھلا بنایا تھا کہ پیچھے سے ہوا اس میں گھستی اور آگے سے نکل جاتی اور اس کرتب سے اس میں سے آواز نکلتی تو وہ احمق جانتے کہ اللہ تعالیٰ بول رہا ہے ) موجودہ توریت کی دوسری کتاب کے بتیسویں باب میں جو لکھا ہے کہ حضرت ہارون نے خود ہی ان کو بچھڑا بنا دیا تھا یہ صریح غلط ہے شان نبوت اور شرک اجتماع ضدین؟ عیسائیو ! قرآن کے مھیمن (علی التوریت) ہونے میں اب بھی شک کروگے؟ (منہ) ( کیا ان جاہلوں نے یہ نہ سمجھا کہ وہ ان سے بولتا تو تھا نہیں اور نہ ان کو کسی قسم کی راہ نمائی کرتا تھا پھر اس کو معبود کیونکر بنا بیٹھے آخر برائی کا نتیجہ برا ہی ہوتا ہے چنانچہ ان سے بھی ایسا ہی ہوا کہ اس بچھڑے کو معبود بناتے ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم اور بے انصاف ٹھیر گئے آخر حضرت موسیٰ کے سمجھانے بجھانے سے سمجھے اور جب اپنے کئے پر نادم ہوئے اور سمجھے کہ ہم تو واقعی راہ راست سے سخت بہک گئے تھے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہنے لگے اگر ہمارا پروردگار ہم پر رحم نہ کرے گا اور ہم کو ہمارے قصور نہ بخشے گا تو کچھ شک نہیں کہ ہم زیاں کاروں سے ہوجائیں گے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے غصہ کا بھرا ہوا رنجیدہ اپنی قوم کی طرف آیا تو آتے ہی کہنے لگا میرے پیچھے تم نے بہت ہی برا کام اختیار کیا۔ کیا تم کو شرم نہ آئی میں تو تمہارے لئے کتاب لینے کو جائوں اور تم نے اس طرح کی بداطواری اپنے پاس سے نکال کر گمراہی اختیار کی۔ کیا اللہ تعالیٰ کی شریعت سے پہلے ہی تم جلد بازی کر گئے اللہ تعالیٰ کے احکام تو ابھی پہنچے ہی نہیں اور تم نے اپنے پاس سے نئی بدعت نکال لی۔ یہ کہہ کر سخت رنجیدہ ہوا اور ان تختیوں کو جو پہاڑ پر اسے ملی تھیں پھینک دیا اور اپنے بھائی ہارون کے سر کے بالوں کو پکڑ کر کھینچنے لگا اس نے نہایت نرمی سے کہا۔ بھائی ! میں کیا کروں قوم نے مجھے کمزور اور ضعیف سمجھا اور بے فرمان ہوگئے بلکہ ایسے بگڑے اگر میں زیادہ کچھ کہتا تو میرا مار دینا بھی ان سے کچھ دور نہ تھا پس تو مجھے ذلیل کر کے دشمنوں کو مجھ پر نہ ہنسا اور مجھے بھی ظالموں کے سنگ میں مت کر کہ جیسی اس معاملہ میں ان کو ذلت پہنچنی ہے مجھے بھی نہ پہنچا۔ حضرت موسیٰ کو بھائی کے عذرات سن کر یقین ہوا اور جوش فرو ہوا تو اس نے دعا کی کہ اے مولیٰ! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہم کو اپنی رحمت میں داخل کرکیونکہ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے خیر بھائیوں کے ملاپ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو الہامی حکم دیا کہ جن لوگوں نے بچھڑا بنایا تھا ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے غضب اور ذلت کی مار دنیا میں پہنچے گی۔ افترا کرنے والوں اور جھوٹ باندھنے والوں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں اس میں سرمو فرق نہیں اور جو لوگ برے کام کر کے توبہ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان لاتے ہیں تو ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ تیرا رب توبہ کے بعد بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے وہ بندوں کی توبہ سے اتنا خوش ہوتا ہے جیسا کوئی اپنی نہایت پیاری چیز کے گم ہونے کے بعد مل جانے پر۔ پیغام الٰہی پہنچانے کے بعد جب حضرت موسیٰ کا غصہ فرو ہوا تو اس نے ان تختیوں کو جنہیں اس نے پھینک دیا تھا پکڑا ان کے مضمون میں ہدایت تھی اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے رحمت۔ آخر بنی اسرائیل تائب ہوئے اور حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو ہماری حاضری کے لئے منتخب کیا اور ان کو ہمارے حضور لا کر پاک کلام سنوایا۔ مگر وہ ایسے کچھ سیدھے سادھے عقل سے خالی تھے کہ کہنے لگے ہم تو جب تک اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھیں گے نہ مانیں گے پس اس گستاخی کی پاداش میں جب پہاڑ پر غضب الٰہی کی بجلی ١ ؎ گرنے سے بھونچال سا ان پر آیا اور بنی اسرائیل اس کے صدمہ سے مر گئے تو حضرت موسیٰ نے دعا کی الٰہی اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان کو اور ان کے ساتھ مجھ کو بھی مار دیتا۔ کیا ہم میں سے بے وقوفوں کی نامعقول بات کرنے سے ہم کو ہلاک کئے دیتا ہے؟ انہوں نے اپنے احمق پن سے نامناسب سوال کیا۔ چونکہ تیرے ہر ایک کام میں حکمت ہوتی ہے اس لئے ہمارا ایمان ہے کہ یہ کام بھی سراسر تیری جانچ ہے جس کو تو چاہے اس کے سمجھنے سے گمراہ کر دے وہ تیری حکمت سمجھنے کے بجائے تیرا ظلم کہنے لگے اور جس کو چاہے اس کی سمجھ دے کہ وہ اس کو تیری حکمت جان کر ایمان لائے تو ہمارا والی ہے پس ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما کیونکہ تو ہمارا مالک ہے اور تو سب سے بڑا بخشنے والا ہے اور علاوہ بخشش کے ہمیں دنیا کی عافیت نصیب کر اور آخرت میں بھی کیونکہ ہم تیرے بندے اور تو ہمارا مولا ہے یقینا ہم تیری طرف رجوع ہیں پس تو ہم پر نظر رحمت فرما اور ان کو زندہ کر دے چنانچہ حضرت موسیٰ کی دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کیا۔ اور کہا کہ موسیٰ تیری دعا کا ایک حصہ تو قبول ہو کر اثر پذیر بھی ہوگیا۔ دوسرے حصہ کی بابت یہ ہے کہ اپنا عذاب میں جس پر چاہوں گا پہنچائوں گا کوئی مجھے ملزموں کی سزا دینے سے روک نہیں سکتا۔ میں دنیا کے حاکموں کی طرح نہیں ہوں کہ بسا اوقات مجرموں کو سزا دینی چاہتے ہیں تو دے نہیں سکتے اور میری رحمت بھی ایسی فراخ ہے کہ سب دنیا کی چیزوں کو شامل ہے ایک رحمت تو ایسی ہے کہ مومن‘ کافر‘ انسان‘ حیوان‘ جاندار‘ بے جان‘ سب کو گھیرے ہوئے ہے اور ایک رحمت ایسی ہے کہ خاص تابعداروں کے حصے میں ہے پس یہ رحمت جو خاص تابعداروں کے حصے کی ہے میں ان کے نام کروں گا جو پرہیزگاری کرتے ہوں گے۔ اور زکوٰۃ دیتے ہوں گے۔ اور جو میرے حکموں کو دل سے مانتے ہوں گے یعنی ان لوگوں کے نام کی کروں گا جو رسول نبی امی یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دینی امور میں تابعداری کریں گے جس کو وہ توریت ! انجیل میں اپنے پاس لکھا ہوا پائیں گے جو ان کو نیک باتوں کا حکم دے گا اور ناجائز کاموں سے منع کرے گا۔ (یجدونہ مکتوبا عندھم) اس مقام پر ہم کتب سابقہ کی پیشگوئیوں کا کسی قدر ذکر کریں گے اس کے متعلق علماء نے متعدد تحریریں لکھی ہیں کئی ایک رسالے فریقین (مسلمانوں اور عیسائیوں) کے شائع ہوچکے ہیں اس لئے ہم تمام پیشینگوئیوں کا ذکر ضروری نہیں سمجھتے صرف دو تین کا ذکر کریں گے اور عیسائیوں نے غلط فہمی سے جو کچھ تاویلات کر کے ان کے متعلق ہاتھ پائوں مارے ہیں ان کا جواب بھی دیں گے۔ پہلی پیشین گوئی توریت کی پانچویں کتاب استثناء کے ١٨ باب کے پندرہویں فقرے میں مرقوم ہے اس کی عبارت یہ ہے : ” اللہ تعالیٰ تیرا اللہ تعالیٰ تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی طرف کان دھریو اس سب کی مانند جو تو نے اپنے اللہ تعالیٰ سے حورب میں مجمع کے دن مانگا اور کہا کہ ایسا نہ ہو کہ میں اللہ تعالیٰ اپنے اللہ تعالیٰ کی آواز پھر سنوں اور ایسی شدت کی آگ پھر دیکھوں تاکہ میں مر نہ جائوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا سو اچھا کہا میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔ اور جو کچھ اسے میں فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا۔ اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جاوے۔ (استثناء ١٨ باب ١٥ آیت) کچھ شک نہیں کہ یہ پیشین گوئی پیغمبر خدا محمد مصطفی محی عبادت واحد مطلق فداہ ابی وامی علیہ الصَّلٰوۃ کے حق میں ہے کیونکہ حضرت موسیٰ سے آنجناب کو جو مشابہت ہے وہ دونوں کے کاموں اور کارگذاریوں سے واضح ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ صاحب شریعت تھے۔ ایسے ہی محمد رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صاحب شریعت مستقلہ ہیں حضرت موسیٰ نے کفار سے جہاد کئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی جہاد کئے۔ حضرت موسیٰ نے بتوں کو توڑا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بتوں کو توڑا بلکہ بت پرستی کو معدوم کیا۔ حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر معراج ہوا۔ آں حضرت کو بھی ہوا۔ غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو حضرت محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت موسیٰ علیہما السلام میں مشترک ہیں پس جب آں حضرت موسیٰ کی مانند ہیں تو پیشین گوئی آپ ہی پر چسپاں ہے نہ کسی اور پر۔ عیسائیوں نے اس کے متعلق کئی طرح سے کوشش کی ہے پادری فنڈر کا اس پر زیادہ زور ہے کہ نبی موعود خود بنی اسرائیل میں سے ہی ہوگا۔ کیونکہ آیات مذکورہ میں ” تیرے ہی درمیان سے“ کا لفظ بھی ہے۔ جس سے مراد (بقول پادری صاحب) بنی اسرائیل ہیں اور پیغمبر اسلام فداہ روحی چونکہ بنی اسمٰعیل سے ہیں اس لئے وہ اس پیشگوئی کے مصداق نہیں ہوسکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ” تیرے ہی درمیان سے“ کا لفظ چونکہ یونانی ترجمہ میں نہیں۔ اس لئے غلط ہے موجودہ نسخوں کا اختلاف بھی اس فقرہ کے غلط ہونے کی تائید کرتا ہے۔ ایک نسخہ عربی میں جو ١٦٧١ ء کے نسخہ سے نقل ہو کر ١٨٥٧ ء میں بمقام لنڈن چھپا ہے۔ یوں مرقوم ہے ” فان نبیا من شعبک ومن اخوتک مثلی یقیمہ لک الرب الھک فاسمع منہ“ دوسرے عربی نسخے میں جو ١٨٦٩ ء میں چھپا ہے یوں مذکور ہے۔ ” یقیم لک الرب الھک نبیا من وسطک من اخوتک مثلی لہ یسمعون“ غرض ایک نسخہ میں وائو عاطفہ کے ساتھ اور دوسرے میں بغیر وائو کے مرقوم ہے جس سے بظاہر دونوں عبارتوں کے معنے میں فرق آتا ہے اردو ترجموں میں بھی وائو عاطفہ نہیں ہے اور اگر اس فقرے کو صحیح مانا جائے تو یہی نسخہ بدون ” وائو“ کے صحیح نظر آتا ہے۔ پس ہم اس فقرہ کو مان کر بھی جواب دیں گے کہ بغیر واؤ کی صورت میں اِخْوَاتِکَ بدل ہے مِنْ وَسْطِکَ سے اور ” واؤ“ کی صورت میں عطف تفسیری ہوگا تو پس دونوں صورتوں میں ” تیرے ہی درمیان“ کے لفظ سے ” تیرے ہی بھائیوں میں سے“ مراد ہوگا۔ دلیل یا قرینے اس توجیہ کے کئی ہیں۔ اول یہ کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے جو کلام نقل کیا ہے اس میں ” تیرے ہی درمیان“ کا لفظ نہیں بلکہ صرف اتنا ہے کہ ” میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک بنی برپا کروں گا۔ “ دوسری دلیل یہ ہے کہ اعمال کے ٣ باب کے بائیسویں فقرے میں بھی اس پیشنگوئی کو نقل کیا ہے اس میں بھی ” تیرے ہی درمیان سے“ کا لفظ نہیں ہے بلکہ صرف اس طرح ہے کہ : ” موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ جو تمہارا اللہ ہے تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی میری مانند اٹھائے گا جو کچھ وہ تمہیں کہے اس کی سب سنو“ (اعمال ٢٢/٣) پس ثابت ہوا کہ ” تیرے ہی درمیان سے“ کا لفظ الحاقی ہے یا ماوّل چنانچہ ہم نے اس کی تاویل کردی ہے ہماری تاویل کے خلاف اگر پادری فنڈر کی بات سنی جائے اور یہ کہا جائے کہ من اخوتک کا لفظ من وسطک کی تابع ہے یعنی من وسطک کے جو معنی ہیں وہی من اخوتک سے لئے جائیں تو صریح خلاف محاورہ ہوگا کیونکہ کلام ثانی کو اول کی تفسیر کے لئے لایا جاتا ہے نہ کہ اول کو ثانی کے لئے چنانچہ کتب نحو میں تابع کی تعریف ہی ان لفظوں سے کی جاتی ہے التابع کل ثان باعراب سابقۃ علاوہ اس کے یہ خرابی لازم آوے گی کہ دوسرے مقاصوں میں جن سے ہم نے عبارات نقل کی ہیں کلام ثانی ہی پر اکتفا کرنا صحیح نہ ہوگا۔ حالانکہ مقصود اول کلام ہے پس نتیجہ صریح ہے کہ من وسطک بغیر وائو کے مبدل ہے من اخوتک بدل ہے اور وائو کے ساتھ عطف تفسیری ہے یعنی حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کی غلط فہمی دفع کرنے کو من وسطک کہہ کر من اخوتک سے تفسیر کردی کہ مبادا یہ لوگ غیر مراد کو مراد سمجھ لیں۔ پادر فنڈر سے بڑھ کر بعض جلد بازوں نے اس پیشگوئی کو حضرت مسیح کے حق میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں : ” حضرت مسیح محمد صاحب کی پیدائش سے چھ سو برس پیشتر اس خبر کو اپنے حق میں بتلا چکے ہیں اور حواری بھی اس خبر کو باربار مسیح کے حق میں بیان کرچکے ہیں چنانچہ یوحنا کے ٥ باب آیت ٤٦ میں ہے اگر تم موسیٰ پر ایمان لاتے تو مجھ پر بھی لاتے اس لئے کہ اس نے میرے حق میں لکھا ہے لیکن جب تم اس کی لکھی ہوئی بات پر ایمان نہیں لاتے تو میری باتوں پر کیونکر ایمان لائو گے۔ پھر یوحنا کے پہلے باب کی آیت ٤٥ میں ہے فیلبوس نے نتھنئل سے کہا کہ جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں اور اور نبیوں نے کیا ہے ہم نے اسے پایا وہ یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہے۔ پھر لوقا کے ٢٤ باب آیت ٢٧ میں ہے اور موسیٰ سے لے کر سب نبیوں کی وہ باتیں جو سب کتابوں میں اس کے حق میں ہیں ان کے لئے بیان کیں۔ پھر اعمال کے ٧ باب ٢٧ میں ہے یہود ہی موسیٰ ہے جس نے بنی اسرائیل کو کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہارا اللہ تعالیٰ تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میرے مانند اٹھاوے گا اس کی سنو۔ پھر اعمال کے ٣ باب آیت ٢٢ میں ہے۔ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ جو تمہارا اللہ تعالیٰ ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میرے مانند اٹھاوے گا۔ پس اب ہم ان سب نبیوں کو غلط ٹھیرا کر مولوی صاحب کی بےدلیل بات کیونکر تسلیم کریں۔ کیونکہ ہم کو کتب الہامیہ سے بڑی سند مل چیر ہے کہ یہ آیت ضرور حضرت مسیح کے حق میں ہے نہ محمد صاحب کے اور لفظ برادران جس سے مولوی صاحب بنی اسمٰعیل مراد لیتے ہیں۔ یہ بھی خلاف ہے کیونکہ بنی اسماعیل بلکہ بنی اودم بھی برادران میں نہیں ہیں اور بنی اسرائیل آج تک بنی اسمٰعیل کو اپنا بھائی قرار نہیں دیتے۔ غیر قوم جانتے ہیں۔ اب رہی تشبیہ سو حضرت مسیح کو حضرت موسیٰ سے کمال درجہ کی تشبیہ ہے۔ مولوی رحمت اللہ تعالیٰ وآل حسن صاحب جو احکام شرعیہ میں محمد صاحب کو تشبیہ دیتے ہیں یہ غلط ہے۔ کیونکہ وہ سب احکام جو محمدی تعلیم میں مذکور ہیں سب موسیٰ ہی کی شریعت ہے اور توریت سے ہی انتخاب ہو کر قرآن میں لکھے گئے ہیں یہ تشبیہ موسیٰ سے نہیں ہوسکتی۔ تشبیہ کمالات میں دینا چاہئے پس دیکھو کہ کمالات میں موسیٰ کی مانند محمد صاحب ہیں یا حضرت مسیح ہیں موسیٰ جب پیدا ہوا تو فرعون بچوں کو مار رہا تھا۔ مسیح جب پیدا ہوا ہیرود نے بیت لحم کے لڑکوں کو قتل کیا تھا۔ موسیٰ چالیس دن پہاڑ پر بھوکا رہا مسیح بھی چالیس دن پہاڑ پر بھوکا رہا۔ موسیٰ کا منہ اللہ تعالیٰ کے جلال سے چمکنے لگا مسیح کا چہرہ بھی اللہ تعالیٰ کے جلال سے چمکنے لگا۔ پھر موسیٰ ایک آسمانی شریعت لایا اور مسیح اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا فضل اور روحانی شریعت لایا اور موسوی شریعت کا حاصل دکھلایا موسیٰ نے عجیب و غریب معجزے دکھلائے مسیح نے اس سے زیادہ عجیب معجزات دکھلائے الغرض کمالات ذاتیہ میں مشابہت درکار ہے۔ سو مسیح میں کماحقہ موجود ہے۔ محمد صاحب میں ہرگز مشابہت موسوی ثابت نہیں ہوتی اور احکامات شرعیہ کی تشبیہ بالکل ناقص ہے علاوہ ازیں اسی باب کی ١٥ آیت سے ١٩ تک خود موسیٰ نے اس مشابہت کا ذکر کردیا ہے کہ وہ آئندہ نبی کس طرح مشابہت رکھے گا یعنی وہ آدمیوں کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بچولا ہوگا جیسا کہ میں حوریب کے مقام پر ہوا تھا۔ رہا مطالبہ اگر تمہارے قول کے مطابق مطالبہ دنیاوی مراد لیں تو بھی یہ صفت مسیح میں ہے نہ محمد صاحب میں۔ کیونکہ جن لوگوں نے مسیح کی نہ سنی ان سے اللہ تعالیٰ نے بڑا مطالبہ کیا۔ چنانچہ قیامت کا نمونہ یروشلم کی تباہی میں دکھلایا۔ اور یہودی جو مسیح کے خلاف تھے برباد ہوئے آج تک پراگندہ اور بے عزت مارے مارے پھرتے ہیں اور سوائے ان کے اور لوگ بھی جو مسیح برخلاف ہیں باطل جہان سے گھٹتے اور بحالت تنزل تباہ ہوتے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ تعالیٰ مسیح کے لوگوں کو جہان میں ایسی ترقی اور رونق دے رہا ہے کہ اٹھارہ سو برس میں دیکھو کیا کچھ ترقی ہوئی۔ یہ خبر کسی طرح محمد کی شان میں نہیں ہوسکتی۔ ضرور مسیح کے حق میں ہے۔“ (تحقیق الادیان مصنفہ پادری عمادالدین صفحہ ٥٤ تا ٥٦) چہ دلاورمے ست ازدے کہ بکف چراغ دارد۔ کی مثل یہی ہے اور دلائل تو بجائے خود تھے ہی پادری صاحب نے غضب کیا کہ اعمال ٣ باب کی ٢٢ کو بھی اپنے ثبوت میں کہ یہ پیشگوئی مسیح کے حق میں ہے پیش کردیا۔ اس لئے سب سے پہلے ہم اسی گواہ سے کہلوانا چاہتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے ابتدائی بیان اس گواہ کا یوں ہے : ” پس توبہ کرو اور متوجہ ہو کر تمہارے گناہ مٹائے جائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سے تازگی بخش ایام آویں اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی ضرور ہے کہ آسمان اسے (مسیح کو) لئے رہے اس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا۔ اپنی حالت پر آویں کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ جو تمہارا اللہ تعالیٰ ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میرے مانند اٹھاوے گا جو کچھ تمہیں کہے اس کی سب سنو اور ایسا ہوگا کہ ہر نفس جو اس نبی کو نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا۔ بلکہ سب نبیوں نے سمویل سے لے کر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی۔ تم نبیوں کی اولاد اور اس عہد کے ہو۔ جو اللہ تعالیٰ نے باپ دادوں سے باندھا ہے جب ابرہام سے کہا کہ تیری اولاد سے دنیا کے سارے گھرانے برکت پائیں گے تمہارے پاس اللہ تعالیٰ نے اپنے بیٹے یسوع کو پہلے بھیجا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی بدیوں سے پھیر کے برکت دیں“ (اعمال ٣ باب کی ٢٢) شہادت مذکورہ صاف بتلا رہی ہے کہ حواریوں کو حضرت مسیح کے بعد بھی اس نبی مثیل موسیٰ کا انتظار لگا ہوا تھا۔ اور وہ اس بات کو بھی مانتے تھے کہ جب تک مثیل موسیٰ پیغمبر نہ آ لے حضرت مسیح مکرر دنیا میں تشریف نہ لائیں گے۔ پس اب پادری صاحب خود ہی غور کریں کہ بمقابلہ حواریوں کے جن کو پادری صاحب الہامی اور نبی مانتے ہیں ان کی رائے کیا وزن رکھتی ہے گو بعد اس قطعی شہادت کے پادری صاحب کے کسی عذر اور شبہ کا جواب دینا ضروری نہیں۔ تاہم بغرض مزید توضیح ان کے ہر ایک شبہ کا جواب بھی مرقوم ہے۔ پہلا شبہ پادری صاحب کو یوحنا ٤٥/١ سے ہوا کہ فیلبوس نے نتھنی ایل سے کہا ہے کہ جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے ہم نے اسے پایا وہ یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہے۔ لیکن پادری مذکور نے اتنا بھی غور نہیں کیا کہ فیلبوس نے یہ کلام اپنی رائے سے کہا یا الہام سے۔ اگر الہام سے کہا تو ثبوت اس کا دیویں اور اگر رائے سے کہا تو حواریوں کے الہام کے مقابل جو اعمال ٣ باب سے نقل ہوا ہے۔ کیا وقعت رکھتا ہے؟ ایسا ہی لوقا ٢٧/٢٤ سے بھی پادری صاحب کا مدعا در بطن ہے کیونکہ اس کا مضمون بھی صرف اتنا ہے کہ حضرت مسیح نے پہلی کتابوں کی توضیح اور تفسیر ان کو سنائی۔ غالباً وہ تفسیر اتباع انبیاء کی بابت ہوگی کیونکہ پہلے اس سے یہ ذکر ہے : ” کیا ضرور نہ تھا کہ مسیح یہ دکھ اٹھائے اور اپنے جلال میں داخل ہو اور موسیٰ اور سب نبیوں سے شروع کر کے وہ باتیں جو سب کتابوں میں اس کے حق میں ہیں ان کے لئے تفسیر کیں۔“ (لوقا ٢٤ باب کی ٢٦) پادری صاحب کو اتنا بھی خیال نہیں کہ میری دلیل بازی کو کوئی مخالف دیکھ کر کیا رائے لگائے گا۔ یوں تو ہر ایک مخالف دوسرے کی بات کو رد کرتا ہے مگر کمال یہ ہے کہ مدعی کے دل سے مخالف آواز نکلے ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس عبارت کو پادری صاحب کے دعویٰ سے کہ (توریت کی مثلی پیشینگوئی سے حضرت مسیح مراد ہیں) کیا تعلق ہے اعمال ٣ باب کی ٢٢ آیت والی عبارت بھی جو پادری مذکور نے نقل کی ہے یہی حکم رکھتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر چنانچہ ہماری منقولہ عبارت سے یہ امر بخوبی واضح ہے ہاں وجوہ تشبیہ میں غور کرنا ضروری امر ہے۔ پادری صاحب نے وجوہ تشبیہ بھی عجیب بیان کی ہیں ان کے جواب دینے سے پہلے ہم اس کی تحقیق لکھتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر ایسی تشبیہ سے مراد کیا ہوتی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ تشبیہ ہمیشہ کسی وصف مشہور میں دی جاتی ہے جسے مخاطب بھی جانتا ہو مثلاً کسی کو شیر سے تشبیہ دیتے ہوئے زید کالاسد کہیں گے تو شیر کی بہادری میں زید کو تشبیہ ہوگی اور اگر کسی کو گدھے سے تشبیہ دیتے ہوئے زید کالحمار کہیں گے تو گدھے کی بے وقوفی میں جو عام طور پر زبان زد خلائق ہے تشبیہ ہوگی اور اگر کوئی شخص پہلی صورت میں وجہ تشبیہ حماقت اور دوسری میں شجاعت سمجھے تو کہا جائے گا کہ یہ شخص خود نابلد کا لحمار ہے اگر وجہ تشبیہ کسی عبارت میں صریح طور پر مذکور ہو تو اس کے وجہ تشبیہ ہونے سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا لیکن اس کا مذکور ہونا دو طرح سے ہوسکتا ہے۔ ایک تو یوں ہوتا ہے کہا جائے کہ زید علم میں عمر کی مانند ہے دوسرے یہ کہ زید عمرو جیسا عالم ہے اس دوسری صورت میں گو ” علم میں“ کا لفظ جو وجہ تشبیہ تھا مذکور نہیں مگر ” عالم“ وجہ تشبیہ بتلانے میں اس سے کم نہیں۔ جیسا اہل زبان پہلے کلام سے وجہ تشبیہ علم کو سمجھتے ہیں دوسرے سے بھی برابر سمجھیں گے الا من سفہ نفسہ پس بعد اس تمہید کے ہم اس پیشگوئی کی تشبیہ پر غور کرتے ہیں کچھ شک نہیں کہ حضرت موسیٰ اپنے وصف نبوت میں ایسے مشہور ہیں جیسے شیر شجاعت میں پس اگر اس پیش گوئی میں ” نبی“ کا لفظ نہ بھی ہوتا تو بھی حسب قاعدہ اس تشبیہ کی بنیاد اس مشہور وصف پر ہوتی۔ جیسی زید کالاسد والی صورت میں شجاعت پر تھی جب کہ حضرت موسیٰ نے اس وجہ تشبیہ کا ذکر بھی کردیا ہے اور ” میری مانند ایک نبی“ کے فقرہ سے اس کی توضیح بھی کردی ہے تو اب تو یقینی بات ہے کہ وجہ تشبیہ صرف نبوت ہے اور یقینا یہی ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ جو کام حضرت موسیٰ نے بحیثیت نبوت و رسالت کئے ہوں گے ویسے ہی وہ موعود نبی کرے گا۔ پس پادری صاحب کا حضرت مسیح کو حضرت موسیٰ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہنا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب پیدا ہوا تو فرعون بچوں کو مار رہا تھا۔ مسیح جب تولد ہوا ہیرود نے بیت لحم کے لڑکوں کو قتل کیا تھا وغیرہ وغیرہ بے بنیاد کلام ہے۔ اس مدعی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ فرعون کا یا ہیرود کا بچوں کو مارنا وصف نبوت میں داخل نہیں حالانکہ آگے چل کر خود ہی لکھتے ہیں کہ ” الغرض کمالات ذاتیہ میں مشابہت درکار ہے“ بھلا فرعون اور ہیرود کا بچوں کو قتل کرنا موسیٰ اور مسیح کے وصف ذاتی میں کیا اثر رکھتا ہے ایک تو یہ قتل غیر کا فعل دوم فعل بھی ایسے وقت کا کہ صاحب کمال ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے یہ تشبیہ تو ایسی ہے جیسی کوئی کہے زید بھی عمرو کی طرح عالم ہے کیونکہ جس طرح عمرو زمانہ قحط میں پیدا ہوا تھا زید بھی ایام قحط میں پیدا ہوا ہے اس لئے یہ ضروری نتیجہ ہے کہ زید بھی عمروکی طرح علم میں کامل ہو۔ تو جیسے اس تشبیہ کے نتیجہ پر دانا ہنسیں گے ایسے ہی پادری مذکور کی وجہ تشبیہ سن کر مسکرا دیں گے۔ تعجب تو یہ ہے کہ عیسائیوں کے عقیدے میں جب مسیح خدا۔ معبود برحق ” حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر انا ربک کہنے والا (دیکھو مفتاح الاسرار (دفعہ ٥ ص ١٤) پھر جب مطلب ہو تو اس کی نبوت کو ایک بندے (موسیٰ) کی نبوت سے تشبیہ دیں (حیرت !) مگر سچ بھی کیا ہی جادو ہے کہ بلا اختیار منہ سے نکل جاتا ہے کہ ” موسیٰ ایک جسمانی شریعت لایا مسیح اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا فضل اور روحانی شریعت لا۔“ چہ خوش کیا ہی اچھی تشبیہ ہوئی پادری صاحب تو جی میں بہت ہی خورسندہ (یا شرمندہ) ہوں گے کہ ہم نے بہت ہی عجیب وجہ تشبیہ بیان کی۔ کاش کہ اس روحانی شریعت کی کوئی تمثیل بجز کفارہ مسیح کے جو بنیاد ارتداد و الحاد ہے آج تک ہمارے گوش گذار بھی ہوتی۔ علاوہ اس کے حضرت موسیٰ جب جسمانی شریعت لائے اور حضرت مسیح روحانی تو یہ تو مبائنتہ اور مخالفت ہوئی یا مشابہت و موافقت اس کو مشابہت کہنا بجز پادری صاحب اور دیگر ان کے ہم مشربوں کے کسی کا کام نہیں۔ یہ ایسی مشابہت ہے جیسے ایک پہلوان جسیم کو پادری صاحب جیسے عالم فاضل سے تشبیہ دی جائے ” چہ نسبت خاک را باعالم پاک“ کہنا نہایت موزوں ہے۔ ہاں پادری صاحب نے یہ بھی خوب کہا کہ موسیٰ نے اس مشابہت کا ذکر کردیا ہے کہ وہ آئندہ نبی کس طرح مشابہت رکھے گا یعنی وہ آدمیوں کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بچولا ہوگا۔ بہت ٹھیک ذرا قرآن شریف کو پڑھئے مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔ فَاِنَّھُمْ لاَ یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ۔ عیسائیوں کی ایک حیرت انگیز کارروائی پر اطلاع دینی بھی ضروری ہے جس سے ناظرین کو حافظ نباشد کی تصدیق کامل ہوگی۔ انجیل یوحنا باب اول کی ١٩ میں مرقوم ہے : ” اور یوحنا کی گواہی یہ تھی جب کہ یہودیوں نے یروشلم سے کاہنوں اور لاویوں کو بھیجا کہ اس سے پوچھیں کہ تو کون ہے اور اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں مسیح نہیں ہوں۔ تب انہوں نے اس سے پوچھا تو اور کون ہے۔ کیا تو الیاس ہے اس نے کہا میں نہیں ہوں پس تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں۔“ (یوحنا ١٩/١) عربی بائیبل میں وہ نبی کی جگہ النبی معرف بلام العہد ہے بائیبل کے حاشیہ میں اس نبی کا حوالہ استثناء کے ١٨ باب کی ١٥ پر دیا گیا ہے پس ان دونوں مقاموں کے ملانے سے خود باقرار خصم ثابت ہوتا ہے کہ استثناء کے ١٨ باب کی ١٥ والی پیشینگوئی کے مصداق نہ حضرت مسیح تھے نہ الیاس نہ یوحنا بلکہ کوئی اور ہی ذات ستودہ صفات ہے فداہ ابی و امی۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کو اس نبی کے آنے کی ایسی انتظار تھی کہ ہر ایک راست گو سے یہ سوال کرتے تھے کہ تو وہی نبی تو نہیں۔ جو استثناء کے ١٨ کی ١٥ میں موعود ہے۔ منصفو ! بتلائو۔ اس سے بڑھ کر بھی کوئی ثبوت ہوسکتا ہے کہ خود باقرار بائبل ثابت ہوا کہ مسیح اور ہے اور وہ نبی جو استثناء ١٨ کی ١٥ میں موعود ہے اور ہے۔ فداہ روحی علیہ افضل الصلوۃ والسلام۔ دوسری پیشگوئی جس کو ہم درج کرنا چاہتے ہیں۔ انجیل یوحنا ١٤ باب فقرہ ١٥ کی ہے جس کا بیان یوں ہے : ” اگر تم مجھے پیار کرتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو۔ اور میں اپنے باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمہیں دوسرا تسلی دینے والا دے گا کہ تمہارے ساتھ ابد تک رہے یعنی سچائی کی روح جسے دنیا نہیں پا سکتی کیونکہ اسے نہیں دیکھتی اور نہ اسے جانتی ہے لیکن تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے اور تم میں ہووے گی۔ میں تمہیں یتیم نہ چھوڑوں گا۔ تمہارے پاس آئوں گا۔ تھوڑی دیر باقی ہے کہ دنیا مجھے اور نہ دیکھے گی پر تم مجھے دیکھتے ہو کیونکہ میں جیتا ہوں اور تم بھی جیو گے۔ اس دن جانو گے کہ میں باپ میں اور تم مجھ میں اور تم میں ہوں جو میرے حکموں کو یاد رکھتا اور انہیں حفظ کرتا ہے وہی ہے جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھے پیار کرتا ہے میرے باپ کا پیارا ہوگا اور میں اس سے محبت رکھوں گا۔ اور اپنے تئیں اس پر ظاہر کروں گا۔ یہودا نے (نہ اسکریوطی نے) اسے کہا اے اللہ تعالیٰ یہ کیا ہے کہ تو آپ کو ہم پر ظاہر کیا چاہتا ہے اور دنیا پر نہیں۔ یسوع نے جواب دیا اور اسے کہا اگر کوئی مجھے پیار کرتا ہے وہ میرے کلام کو حفظ کرے گا۔ اور میرا باپ اسے پیار کرے گا اور ہم اس کے پاس آویں گے اور اس کے ساتھ سکونت کریں گے۔ جو مجھے پیار نہیں کرتا میری باتوں کو حفظ نہیں کرتا ہے اور یہ کلام جو تم سنتے ہو میرا نہیں بلکہ باپ کا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ ہوتے ہوئے تم سے کہیں لیکن وہ تسلی دینے والا جو روح القدس ہے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب کچھ سکھلائے گا اور جو کچھ میں نے تمہیں کہا ہے تمہیں یاد دلاوے گا۔ اسلام تم لوگوں کے لئے چھوڑ کے جاتا ہوں اپنی سلامتی میں تمہیں دیتا ہوں نہ جس طرح سے دنیا دیتی ہے میں تمہیں دیتا ہوں تمہارا دل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے تم سن چکے ہو کہ میں نے تم کو کہا کہ جاتا ہوں اور تمہارے پاس پھر آتا ہوں۔ اگر تم مجھے پیار کرتے ہو تو میرے اس کہنے سے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں تو خوش ہوتے کیونکہ میرا باپ مجھ سے بڑا ہے اور اب میں نے تمہیں اس کے واقعہ ہونے سے پیشتر کہا ہے تاکہ جب ہوجائے تم ایمان لائو۔ آگے کو تم سے بہت باتیں نہ کروں گا۔ کیونکہ اس دنیاکا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں لیکن اس لئے کہ دنیا جانے کہ میں باپ سے محبت رکھتا اور جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا ویسا ہی کرتا ہوں۔ اٹھو یہاں سے چلیں۔ “ پھر ١٦ باب کے فقرہ ٧ میں ہے : ” لیکن میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے۔ کیونکہ میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا تمہارے پاس نہ آوے گا۔ پر اگر جائوں تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ اور وہ آن کر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے ملزم ٹھیرائے گا۔ گناہ سے اس لئے کہ دے مجھ پر ایمان نہ لائے۔ راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے۔ عدالت سے اس لئے کہ اس دنیا کے سردار پر حکم کیا گیا ہے۔ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ تم سے کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے ہو۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کی روح آوے تو تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی کیونکہ وہ اپنی نہ کہے گی بلکہ جو کچھ سنیے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی۔ وہ میرا جلال ظاہر کرے گی کیونکہ میری چیزوں سے لے گی اور تمہیں بتاوے گی۔ سب کچھ جو باپ کا ہے میرا ہے اس لئے میں نے کہا کہ وہ میری چیزوں سے لے گی اور تمہیں بتاوے گی۔ اس پیشگوئی میں حضرت مسیح نے علاوہ توضیح کرنے آنے والے نبی یا روح حق کی اس کے کاموں کی تفصیل بھی کردی ہے اول یہ کہ وہ تسلی دے گا۔ دوم وہ حضرت مسیح کی تصدیق کرے گا۔ بلکہ آپ کے منکروں کو مجرم ٹھیرائے گا بلکہ سزا بھی دے گا۔ سوم وہ سردار ہوگا چہارم وہ اپنی نہ کہے گا بلکہ اللہ تعالیٰ سے جو الہام پائے گا کہے گا۔ پنجم مسیح کی تعلیم عیسائیوں کو یاد دلائے گا۔ اب ان سب باتوں کا ثبوت ہادیٔ برحق فداہ روحی میں دکھانا ہمارے ذمہ ہے جسے ہم بفضلہ تعالیٰ پورا کرتے ہیں۔ اول وہ تسلی دے گا۔ قرآن کو غور سے پڑھو۔ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ تم میرے بندوں سے جو اپنے نفسوں پر زیادتی کرچکے ہیں کہو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے امید نہ ہوئو تم توبہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے سب گناہ معاف کر دے گا کیونکہ وہ بڑا بخشنہار مہربان ہے۔.اندوہگین کو اس سے زیادہ تسلی کیا ہوسکتی ہے۔ دوسرا کام حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تصدیق ہے یہ تو قرآن اور پیغمبر قرآن نے ایسا کیا ہے کہ تاقیامت عیسائیوں کی گردن اس احسان سے جھکی رہے گی اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ واہ ری سچائی۔ ایک طرف مشرکین عرب کی کثرت اور یہودیوں کی شرارت اور ایک طرف حق کا پاس مگر اس روح حق نے ان سب مشکلات کی کوئی پرواہ نہ کر کے صاف صاف اور کھلے کھلے لفظوں میں رَسُوْلااِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ مسیح کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرایل کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ اور وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیَْنَ (مسیح دنیا اور آخرت میں بڑی عزت والا اور اللہ تعالیٰ کے مقربوں میں سے تھا) کی منادی کرا دی عیسائیو ! اس احسان کو مانو۔ اس محسن کی قدر کرو ورنہ بتلائو اگر قرآن مسیح کے حق میں نیک شہادت نہ دیتا تو آج مسیح کے بدگوئوں کی کتنی ترقی ہوتی۔ اے احسان فراموشو ! باز آئو۔ کب تک شکران نعمت کو کفران سے بدلتے رہو گے۔ سچ ہے مجھ میں اک عیب بڑا ہے کہ وفادار ہوں میں ان میں دو وصف ہیں بدخو بھی ہیں خود کام بھی ہیں تیسرا کام سرداری ہے یعنی حکمرانی۔ غور سے پڑھو فلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰے یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ جب تک تجھ پیغمبر اسلام کو اپنے جھگڑوں میں منصف نہ بنائیں گے یہ مؤمن نہ ہوں گے۔ وَمَن یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ۔ جو کوئی رسول کی تابعداری کرے اس نے اللہ تعالیٰ کی کری۔ چوتھا کام وہ اپنی نہ کہے گا۔ سنو ! کان لگا کر سنو ! وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ الاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے الہام سے بولتا ہے۔ ۔ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بالْیَمِیْنِ۔ اگر رسول ہمارے ذمہ کوئی بات لگا دے جس کے کہنے کی اسے اجازت نہ ہو تو ہم اس کو فوراً ہلاک کر ڈالیں۔ پانچواں کام حضرت مسیح کی تعلیم کا عیسائیوں کو یاد دلانا ہے اس کی طرف خاص توجہ مطلوب ہے۔ ذرہ دل سے متوجہ ہو کر غور سے سنو ! لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاوٰہُ النَّارُ وَمَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۔ جو لوگ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی مسیح ابن مریم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں حالانکہ مسیح نے خود کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل ! میرے رب کی اور اپنے رب کی عبادت کرو۔ جو کوئی شرک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔۔٭ لَقَدْ ! کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ الاَّ اِلٰـہٌ وَاحِدٌ وَّاِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّآ یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیَْن کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (المائدۃ) جن لوگوں کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ تینوں میں سے ایک ہے وہ کافر ہیں اللہ تعالیٰ صرف ایک ہے اگر یہ اپنے قول سے باز نہ آئے تو ان کو عذاب الیم ہوگا۔ اس کے مطابق مسیح کے الفاظ کا پتہ لینا ہو تو سنو ! ” سب حکموں میں اول حکم یہ ہے اے اسرائیل سن وہ اللہ تعالیٰ جو ہمارا اللہ ہے ایک ہی اللہ تعالیٰ ہے۔“ (مرقس ١٢‘ ٢٩) مضامین خمسہ مذکورہ تو قرآن شریف کی عموماً ہر سورۃ اور ہر پارہ میں مل سکتے ہیں۔ اس لئے بجائے اس تفصیل کے عیسائیوں کے شبہات کا جواب ضروری ہے۔ پادری فنڈر میزان الحق میں لکھتے ہیں : ” علمائے محمدی آیات کے باقی کلمات اور مطالب پر کچھ متوجہ نہیں ہوتے۔ حالانکہ اسی ١٤ باب کی ٢٦۔ آیت میں بھی موعود تسلی دینے والا روح القدس کہلایا ہے اور اس کے حق میں کہا گیا ہے کہ وہ سب چیزیں حواریوں کو سکھائے گا اور مسیح کی بات انہیں یاد دلائے گا اور پھر ١٦ و ١٧ آیت میں مسیح حواریوں سے کہتا ہے کہ وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا اور تم میں ہووے گا۔ اور دنیا اسے نہیں دیکھتی الحاصل ظاہر و آشکار ہے کہ محمد کسی مقام پر روح القدس اور روح حق نہیں کہلایا اور کیونکر ہوسکتا تھا کہ محمد جس کا خروج حواریوں سے پانسو برس بعد ہوا پھر وہ مسیح کی بات انہیں یاد دلائے اور انہیں سکھائے اور ہمیشہ ان کے پاس اور ان میں رہے ظاہر ہے کہ ایسی بات تو کوئی عقلمند نہ کہے گا۔ اور محمد کو تو سب لوگوں نے آنکھوں سے دیکھا مگر پار اقلیت کے حق میں مسیح نے کہا ہے کہ دنیا اسے نہیں دیکھ سکتی اور اگر تو کوئی اور بھی دللا چاہتا ہے جس سے بخوبی ظاہر ہوجائے کہ وہ تسلی دینے والا جس کا حواریوں سے وعدہ ہوا تھا محمد نہیں ہے۔ تو یہ بات بھی سن لے جو اعمال کے پہلے باب کی ٤ و ٥ آیتوں میں مذکور ہے کہ مسیح نے اپنے صعود سے پہلے اپنے شاگردوں سے ملاقات کر کے بڑی تاکید سے کہا کہ یروشلم سے باہر نہ جائو بلکہ باپ کے اس وعدہ کی جس کا ذکر تم مجھ سے سن چکے ہو راہ دیکھو۔ یوحنا نے تو پانی سے بپٹسمہ دیا۔ پر تم تھوڑے دنوں بعد روح القدس سے بپٹسما پائو گے۔ اور مسیح کا یہی حکم لوقا کے آخر باب کی ٤٩۔ آیت میں بھی مرقوم ہے اور درحالیکہ مسیح نے حواریوں کو یہ حکم دیا تھا کہ جب تک وہ مدد کرنے والا موعود یعنی روح القدس تمہارے پاس نہ آئے یروشلم سے الگ مت ہونا سو اگر وہ مدد کرنے والا محمد ہوتا جیسا کہ محمدی لوگ کہتے ہیں تو ضرور ہوتا کہ حواری یہی مسیح کی عدول حکمی نہ کر کے نہ صرف چند روز بلکہ چھ سو برس تک اسی یروشلم میں زندہ" رہ کر محمد کا انتظار کرتے کیونکہ محمد نے تو مسیح سے چھ سو برس بعد خروج کیا۔ خلاصہ ظاہر ہے کہ ایسی باتیں باطل ہیں اور ان آیات کو محمد سے منسوب کرنا عقل و انصاف سے باہر ہے۔ پوشیدہ نہ رہے کہ مدد کرنے والا جس کا مسیح نے حواریوں کو وعدہ دیا تھا روح القدس تھا۔ چنانچہ مسطورہ آیتوں سے صاف و آشکار و یقین ہوتا ہے اور روح القدس جو انجیل کی تعلیم کے موافق اقنوم ثالث سے مراد ہے مسیح کے وعدہ کے بموجب مسیح کے عروج سے دس دن بعد حواریوں پر نازل ہوا جیسا کہ اعمال کے ٢ باب میں مفصل بیان ہوا ہے اور جب کہ روح القدس حواریوں پر نازل ہوچکا اور رسالت کا مرتبہ اور معجزہ کی قوت انہیں دے چکا تو انہوں نے یروشلم سے نکل کر سارے جہان میں انجیل کا وعظ کیا۔ چنانچہ ان مطالب کا ذکر اس کتاب کے دوسرے باب کے آخر میں ہوچکا ہے۔“ (دفعہ ٢ ص ٣٤٥) خلاصہ یہ کہ بقول پادری صاحب جس روح کی بابت مسح نے پیشگوئی فرمائی ہے وہ آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے صدیوں پیشر حواریوں پر نازل ہوچکی تھی۔ جس کا بیان اعمال ٢ باب میں مفصل مذکور ہے۔ پادری صاحب کے حوالہ کے بموجب ضروری ہے کہ ہم اعمال ٢ باب کی پوری پوری عبارت نقل کریں۔ گو یہ واجب ان پر تھا جو انہوں نے ادا نہیں کیا۔ وہ یہ ہے : ” اور جب عید پا تکوست کا دن آچکا وہ سب ایک دل ہو کے اکٹھے تھے اور یکایک آسمان سے آواز آئی جیسے بڑی آندھی چلے اور اس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے بھر گیا۔ اور انہیں آگ کی سی جدی جدی زبانیں دکھائی دیں اور ان میں سے ہر ایک پر بیٹھیں اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے۔ اور غیر زبانیں جیسے روح نے انہیں تلفظ بخشا بولنے لگے اور اللہ تعالیٰ ترس یہودی ہر قوم میں سے جو آسمان کے تلے ہے یروشلم میں آرہے تھے۔ سو جب یہ آواز آئی تو بھیڑ لگی اور وہ دتگ ہوئے کیونکہ ہر ایک نے انہیں اپنی بولی بولتے سنا۔ اور سب حیران اور متعجب ہوئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ دیکھو یہ سب جو بولتے ہیں کیا گلیلی نہیں۔ پس کیونکر ہر ایک ہم میں سے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے۔ پارتھی اور میدی اور علامی اور رہنے والے مسوپوتامیہ یہودیہ اور کپادوکیہ پنطس اور اسیا۔ فریگیہ اور پمفیلیہ مصر اور لبنہ کے اطراف کے جو قورینہ کے قریب ہے۔ اور رومی مسافر اصلی اور داخلی یہودی۔ کریتی اور عرب ہم اپنی زبانوں میں او نہیں اللہ تعالیٰ کی عمدہ باتیں بولتے سنتے ہیں اور سب حیران ہوئے اور شیہ میں پڑے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے یہ کیا ہوا چاہتا ہے اوروں نے ٹھٹھے سے کہا کہ یہ شراب کے نشہ میں ہیں۔ تب پطرس نے گیا رہوں کے ساتھ کھڑا ہو کے اپنی آواز بلند کی اور انہیں کہا۔ اے یہودی مردو ! اور یروشلم کے رہنے والو ! یہ تمہیں واضح ہو اور کان لگا کر میری باتیں سنو ! کہ جیسا تم سمجھتے ہو متوالے نہیں کیونکہ دن کی تیسری گھڑی ہے بلکہ یہ وہ ہے جو یوئیل نبی کی معرفت کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ آخری دنوں میں ایسا ہوگا کہ میں اپنی روح میں سے ہر جسم پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں نبوت کریں گی اور تمہارے جوان رویا اور تمہارے بڈھے خواب دیکھیں گے۔ ہاں ان دنوں میں اپنے بندوں اور بندیوں پر اپنی روح میں سے ڈالوں گا اور وہ نبوت کریں گے۔“ (اعمال باب ٢۔ ٨) پس ناظرین خود ہی انصاف فرما دیں کہ جس روح کے آنے کی حضرت مسیح نے خبر دی ہے۔ وہ یہی ہے؟ کیا مسیح کے بتلائے ہوئے آثار اس روح میں پائے جاتے ہیں۔ کیا مسیح کی بڑائی اور تصدیق اس روح نے کی؟ کیا منکروں پر سزا کا حکم لگایا۔ مسیح کی بھولی ہوئی تعلیم لوگوں کو اور خصوصاً حواریوں کو یاد دلائی؟ تعجب تر یہ کہ خود حواری بھی اس روح کو حضرت مسیح کی بتلائی ہوئی روح نہیں بتلاتے۔ کیا اگر حواری بھی اس کو حضرت مسیح کی بتلائی ہوئی روح جانتے تو بجائے یوئیل نبی کے مسیح کا حوالہ نہ دیتے۔ جس کا منکروں کے سامنے ذکر کرنے سے اور فائدہ ان کے ایمان کا بھی ہوتا۔ ہاں پادری صاحب کا یہ شبہ کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) تو حواریوں سے پیچھے ہوئے۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ ان کو بھولی ہوئی باتیں یاد دلائے۔ پادری صاحب اور ان کے ہم مشربوں کی تحریریں کتب مذہبی سے عدم واقفیت پر مبنی ہیں۔ پادری صاحب ہمیشہ کتب مقدسہ میں بلکہ عموماً کتب قومی میں صیغہ خطاب سے خاص مخاطب مراد نہیں ہوتے بلکہ عام خواہ ان سے بعد سینکڑوں نہیں ہزاروں سال ہوں۔ ورنہ بتلائے کہ انجیل متی باب ٥ کا تمام پہاڑی وعظ کس کے لئے ہوگا۔ جس میں تم تم کے لفظ سے حضرت مسیح خطاب فرما کر احکام بتلاتے ہیں۔ اس سے زیادہ وضاحت منظور ہو تو متی ٢٦ باب ٦٤ کو غور سے پڑھو۔ جہاں سردار کاہن سے مسیح فرماتے ہیں کہ : ” اس کے بعد تم ابن آدم کو قادر مطلق کی داہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔ “ بتلائیے ! سردار کاہن کو آج تک بھی بادلوں میں مسیح کی زیارت نصیب ہوئی۔ ہاں یہ خوب کہی کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو سب لوگوں نے دیکھا۔ مگر پارا قلت کے حق میں مسیح نے کہا کہ دنیا اسے نہیں دیکھ سکتی پادری صاحب ! مسیح کو بھی سب نے دیکھا بلکہ (بقول آپ کے) پکڑ کر سولی بھی دیا اور بیچارہ ایلی ایلی لماسبقتانی بھی پکارا تاہم یہی کہتا رہا کہ والعالم لیس یروننی وانتم تروننی (عربی بائیبل انجیل یوحنا ١٩/١٤ مطبوعہ لندن) ” یعنی جہان کے لوگ مجھے نہیں دیکھتے اور تم (اے حواریو !) مجھے دیکھتے ہو“ شاید اسی پیش بندی کے لئے اردو میں اس کے ترجمہ میں کچھ لفظ زائد کر کے یوں ترجمہ کیا گیا ہے ” اب تھوڑی دیر ہے کہ دنیا مجھے پھر نہ دیکھے گی پر تم مجھے دیکھتے ہو“ جس پر ادنیٰ توجہ کرنے سے غلط معلوم ہوتا ہے۔ پس جس طرح مسیح کو دنیا نہیں دیکھتی تھی اس طرح محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو دنیا نے نہیں دیکھا۔ سچ ہے۔ اگر دیکھتے تو ظالم مکہ سے کیوں نکال دیتے۔ بیشک حواریوں نے یعنی حواریوں جیسے ایمانداروں نے اس کو دیکھا اور دیکھ بھی رہے ہیں اور آئندہ کو دیکھیں گے۔ مگر کافروں نے دونوں (محمد اور مسیح) کو نہیں دیکھا اور نہ دیکھ سکتے ہیں حضرت مسیح کے قول سے قرآن کی مطابقت چاہتے ہو تو سنو ! مِنْہُمْ مَنْ یَسْتَمِعُ اِلَیْکَ اَفَاَنْتَ تَھْدِی الْعُمْیَ وَلَوْکَانُوْا لَا یُبْصِرُوْنَ (بعض کفار تیری طرف نظر کر رہے ہیں مگر حقیقتہً اندھے ہیں تجھے نہیں دیکھتے۔ کیا پھر تو اندھوں کو راہ دکھا سکے گا گو وہ دانستہ نہ دیکھیں) ہاں پادری صاحب کا یہ کہنا کہ مسیح نے اپنے صعود سے پہلے اپنے شاگردوں سے ملاقات کر کے بڑی تاکید سے کہا کہ یروشلم سے باہر نہ جائو بلکہ باپ کے اس وعدے کے موافق جس کا ذکر تم مجھ سے کرچکے ہو راہ دیکھو وغیرہ۔ حیرت افزا ہے کہ پادری صاحب ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی مثل صادق کر رہے ہیں۔ یہ وہی روح قدس ہے جس کا ذکر اعمال ٢ باب والی عبارت میں ہے اور جس کا جواب پہلے ہوچکا کہ یہ روح یوحنا کے ١٤ باب والی روح نہیں ہاں پادری صاحب نے سردار کے متعلق جو توجیہ گھڑی ہے واقعی اس نے سب کو ماند کردیا۔ جو بالکل ” ایجاد بندہ اگرچہ گندہ“ کی مصداق ہے۔ آپ لکھتے ہیں :۔ ” علمائے محمدی اس آیت کو محمد سے نسبت دیتے ہیں حالانکہ الفاظ ” اس جہان کے سردار“ جو اس آیت میں مذکور ہیں ان سے شیطان مراد ہے۔ چنانچہ انجیل کی اور آیتوں سے صاف معلوم و یقین ہوتا ہے اور سارے مفسرین نے بھی یہی تفسیر کی ہے جاننا چاہئے کہ انجیل کے مضمون کے بموجب وہ لوگ جو گناہ کرتے ہیں گناہ ہی کے بندے ہوجاتے ہیں اور گناہ ان کا مالک ہوجاتا ہے (اس میں کوئی انجیل کی ہی خصوصیت نہیں۔ قرآن مجید بلکہ کل کتب مقدسہ کا یہی محاورہ ہے اِسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰھُمْ ذِکْرَ اللّٰہِ اُوْلٰئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ اَلاَ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ کو غور سے پڑھو) رومیوں کے ٦ باب کی ١٦ آیت اور گناہ اور جھوٹ کا باپ شیطان ہے یعنی گناہ اور سزا اسی سے ہے۔ یوحنا ٨ باب کی ٤٤ آیت اور ہوا کا سردار یعنی شیطان کے سبب نافرمانبرداروں میں تاثیر و حکم کرتا ہے چنانچہ افیؤں کے باب ٢ کی پہلی اور دوسری آیتوں میں مرقوم ہے۔ (میزان الحق دفعہ ٢ صفحہ ٢٤٩) جی نہیں چاہتا کہ پادری صاحب کے اس قول کا رد کیا جائے بلکہ اس کو بحال خود چھوڑ کر ناظرین سے انصاف چاہا جائے کہ وہ خود ہی یوحنا ١٤ باب کو جو ہم نے نقل کردیا ہے۔ پڑھ کر پادری صاحب سے سمجھ لیں مگر اس خیال سے کہ پادری صاحب اور دیگر ان کے ہم مشرب ناراض نہ ہوجاویں کہ ہماری محنت کی داد نہیں ملی کچھ عرض کی جاتی ہے۔ بیشک ہم مانتے ہیں کہ قرینہ سے گنہگاروں اور بدکاروں کا سردار بلکہ معبود بھی اگر شیطان کو کہا جائے تو ممکن ہے اور صحیح ہے لیکن جہاں اللہ تعالیٰ کا سچا رسول بلکہ (بقول آپ کے) خود اللہ تعالیٰ یوں کہے کہ بعد اس کے میں تم سے بہت کلام نہ کروں گا اس لئے کہ اس جہان کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں تو مقام غور ہے کہ یہ سردار شیطان ہوسکتا ہے؟ کیا کسی حواری کو شبہ ہوا تھا کہ مسیح بھی (معاذ اللہ تعالیٰ استغفر اللہ) کوئی شطانی حرکت اور شرارت ہے جس کے دفعیہ کو حضرت مسیح نے فرمایا کہ مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں۔ عیسائیو ! مقام مدح اور مقام ذم میں بھی تو فرق ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے پادری صاحب نے ” اضافت الی البعض اور اضافت الی الکل“ میں فرق نہیں کیا۔ شیطان کی سرداری کا اظہار باضافت گنہگاروں کے تو صحیح ہے لیکن باضافت کل بندگان یا باضافت مطلقہ صحیح نہیں مثلاً یوں اگر کوئی کہے کہ شیطان مشرکوں کا سردار ہے تو صحیح ہے لیکن اگر یوں کہے کہ شیطان دنیا کا سردار ہے تو ” دنیا“ کے لفظ سے بجز یورپ ! مراد لینے کے کوئی وجہ صحت کلام کی نہیں۔ فافہم۔ ناانصاف عیسائیو ! کیوں شریروں کی ماتحتی پسند کرتے ہو۔ باز آئو باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ ایں درگہ ما درگہ نو میدی نیست صد بار اگر توبہ شکستی باز آ اور حلال طیب جو سب انبیاء کی شریعت میں جائز چلے آئے ہوں گے ان کو حلال بتلائے گا۔ اور جو حرام ہوں گے ان کو حرام ٹھیرائے گا اور ان یہودیوں اور عیسائیوں سے احکام کی سختی اور گلے کے پھندے جو ان پر پڑے ہوں گے دور کر دے گا۔ پس جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے اور اس کی عزت اور توقیر کئے اور اس کی مدد کئے اور جو نور اور ہدایت یعنی قرآن اس نبی کے ساتھ اترا ہوگا اس کی تابعداری کئے ہوں گے وہی لوگ کامیاب ہوں گے۔ اس لئے تو اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم واضح لفظوں میں ان سے کہہ دے کہ لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہو کر آیا ہوں۔ وہ اللہ تعالیٰ جس کی حکومت تمام آسمانوں اور زمینوں میں ہے (اصر اور اغلال کی پوری تفصیل مع ثبوت دیکھنی ہو تو ہماری کتاب ” تقابل ثلاثہ“ توریت‘ انجیل اور قرآن کا مقابلہ“ میں احکام شریعت ملاحظہ کریں۔ ١٢ منہ) جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہی زندہ رکھتا اور مارتا ہے پس مناسب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر جو نبی امی ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حکموں پر دل سے ایمان رکھتا ہے ایمان لائو اور اس کی اطاعت کرو تاکہ تم سیدھی راہ پائو۔ اسی طرح پہلے لوگوں کی طرف ہم نے رسول بھیجے تھے بعض لوگ ان سے مستفیض ہوتے اور بعض انکار کر جاتے یہ کوئی ضروری نہیں کہ سب کے سب ہی مان جائیں اور راہ راست پر آجائیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل میں سے بھی ایک ہی جماعت تھی جو حق بات کی راہ نمائی کرتی اور اسی حق سے عدل و انصاف کرتی تھی جو کوئی بات ان سے پوچھے صحیح اور بے خوف بتلاتے تھے اور ہم نے بنی اسرائیل پر طرح طرح کے احسان کئے ان کی مردم شماری یہاں تک بڑھائی کہ ان کو بڑے بڑے بارہ گروہ اور مختلف قبیلے بنایا اور ان کی حاجت روائی کا اس درجہ خیال رکھا کہ جب موسیٰ کی قوم بنی اسرائیل نے میدان میں ان سے پانی طلب کیا تو ہم نے ان کی ضرورت معلوم کر کے موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغام دیا کہ اپنی لکڑی جو تو ہاتھ میں لئے ہوئے ہے پتھر پر مار پس اس پتھر کو لکڑی کا لگنا ہی تھا کہ بارہ چشمے اس میں سے بہہ نکلے جو ان کے بارہ گروہوں کو کفایت کرتے تھے اس لئے ہر ایک آدمی نے ان میں سے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرلیا اور حسب ضرورت پانی پیتے رہے اور ہم نے ان پر میدان تیہ میں بادلوں کا سایہ کیا۔ یعنی بارشیں کرتے رہے اور ان پر من اور سلویٰ اتارا من جنگل کی خود رو سبزی تھی اور سلوی شکار کے جانور جیسے بٹیر تیتر وغیرہ۔ (منہ) اور عام اجازت دی کہ ہماری دی ہوئی پاکیزہ نعمتیں کھائو اور بے فرمانی نہ کرو۔ لیکن انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ مخالفت پر کمربستہ ہوئے آخر کار ہمارا تو کچھ نہ بگاڑ سکے لیکن اس مخالفت میں اپنا نقصان کرتے رہے۔ اور جب انہوں نے گیہوں پیاز وغیرہ کی درخواست کی تو ان سے کہا گیا کہ اس بستی اریحا میں چلے جائو۔ اور جہاں سے چاہو کھلے کھاتے پھرو۔ اور معافی چاہتے ہوئے حِطَّۃ کہو یعنی معافی چاہو اور شہر کے دروازہ میں متواضعانہ سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے داخل ہونا۔ یہ تمہاری طرف سے شکر یہ سمجھا جائے گا نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور آئندہ نیکوکاروں کو زیادہ بھی دیں گے پھر جو لوگ ان میں سے کجرو اور ظالم تھے انہوں نے کہی ہوئی بات کے مخالف ایک اور بات کہی یعنی استہزاء کے طور پر بجائے حطہ (معافی) کے حنطہ (گیہوں) کہنے لگے پس ہم نے ان کی بداطواری کی وجہ سے آسمان سے ان پر عذاب نازل کیا۔ جس سے سب کے سب ذلیل اور خوار ہوئے بجائے فتح کے الٹی شکست ہوگئی۔ پس تو اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان سے یہودیوں کی اس بستی کا حال پوچھ جو دریا کے کنارے بستے تھے جب وہ سبت (شنبہ) کی تعظیم میں زیادتی کرتے تھے کیونکہ سبت کے دن ان کو دنیاوی کاموں سے فراغت کر کے عبادت میں مشغول رہنے کا حکم تھا اور دریا کی مچھلیاں بھی اس دن زور سے ٹڈی دل کی طرح آتیں اور جس دن وہ سبت میں مشغول نہ ہوتے بالکل نہ آتیں۔ یہ دیکھ کر وہ گھبرائے کیونکہ ان کا گذارہ معاش اکثر اسی شکار پر تھا۔ آخرکار انہوں نے سبت کی تعظیم کو بالائے طاق رکھ کر شکار کرنا شروع کردیا۔ اصل بات یہ تھی کہ اس بدتعظیمی کے علاوہ اور بھی بے حکمیاں کرا کرتے تھے۔ ان کی بے حکمی کرنے کی وجہ سے ہم ان کو اسی طرح آزماتے تھے۔ اور ان کی بداطواری دنیا پر ظاہر کرتے تھے۔ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کسی قوم میں بدکاری پھیلتی ہے تو بعض ان میں سے ناصح بن کر ان کو سمجھایا کرتے ہیں تو بعض ان ناصحوں کے ناصح بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ جو ان کو وعظ و نصیحت سے باز رکھتے ہیں۔ اسی طرح اس بستی والوں۔ کی حالت ہوئی۔ بعض خود غرض تو ان میں سے بدتعظیمی اور بے حکمی کرنے لگنے اور بعض ان کو سمجھانے لگے اور جب ان میں سے خاموشی اختیار کرنے والی ایک جماعت ناصحین کو مخاطب کر کے بولی کہ کیوں تم ایسے لوگوں کو سمجھاتے ہو کہ جن کی بداطواری دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بالکل تباہ کرنے کو ہے یا دنیا ہی میں سخت عذاب میں مبتلا کرنے والا ہے۔ انہوں نے ان کے جواب میں کہا اس وعظ و نصیحت سے جاسی کہ عام طور پر ناصحوں اور مصلحتوں کی غرض ہوا کرتی ہے۔ ہماری بھی وہی غرض ہے یعنی ہم اس لئے ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے پاس اپنا عذر بنا سکیں اور یہ بھی خیال ہے کہ شاید وہ بھی اس بدکاری سے بچ جائیں آخر ہمیں علم غیب تو نہیں کہ یہ لوگ راہ راست پر نہ آئیں گے جب تک ناصح کے نزدیک امکان تاثیر ہو اس کا فرض ہے کہ نصیحت نہ چھوڑے مگر بدکاروں نے ان کی ایک نہ سنی پس جب وہ بدکار لوگ پند و نصائح سب بھول بیٹھے اور سب کچھ بالائے طاق رکھ دیا تو ہمارا غضب بھی ان پر آیا پھر ہم نے انہی لوگوں کو جو برائی اور بدکاری سے منع کیا کرتے تھے بچایا اور باقی سب ظالموں کو جو بدکاری کرتے تھے اور جو ان کی بدکاری پر خاموش تھے سب کو ان کی بدکاریوں کی وجہ سے سخت عذاب میں مبتلا کیا پھر کچھ دنوں تک عافیت دی مگر جب وہ حد ممانعت سے بڑھتے ہی گئے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ تم ذلیل و خوار بندر بن جائو تمہاری یہی سزا مناسب ہے اور ایک واقعہ بھی ان کو سنا جب اللہ تعالیٰ نے اعلان کردیا کہ اگر بنی اسرائیل نے میرے حکموں کی پرواہ نہ کی اور شریعت کے مخالف کام کرنے لگے تو میں ان پر قیامت تک ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہوں گا جو ان کو سخت عذاب پہنچاتے رہیں گے بیشک تیرا پروردگار بڑی جلدی عذاب پہنچا سکتا ہے ممکن نہیں کہ کوئی اسے روک سکے اور وہ اپنے فرماں بردار توبہ کرنے والے بندوں کے حق میں بڑا بخشنہار مہربان ہے اور سنو ! ہم نے ان کو زمین میں مختلف جماعیں ت بنا رکھا ہے۔ بعض ان میں سے نیک ہیں اور بعض اس کے سوا ہیں یعنی بدعمل ہیں اور ہم نے ان کو کبھی احسانوں سے اور کبھی تکلیفوں سے آزمایا تاکہ وہ برے کاموں سے پھریں اور ہدایت پر آویں۔ مگر یہ ایسے کے ویسے ہی رہے پھر ان سے پیچھے ان کے ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو آسمانی کتاب کے وارث تو ہوئے مگر غلط مسائل اور بے جا تاویلات کر کے جہاں سے دنیا کا مال حاصل کرتے ہیں اور اپنے بے جا گھمنڈ میں کہتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ معاف کیا جائے گا اور طرفہ تریہ کہ ایک ہی طرف سے نہیں لیتے بلکہ کسی معاملہ میں اگر ایک طرف والا کچھ رشوت دے کر غلط مسئلہ لے جائے اور پھر دوسری طرف سے بھی اسی کے مثل مال ملے تو وہ بھی لے لیتے ہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ہم نے ایک طرف سے لیا ہے اب دوسری طرف سے کس منہ سے لیں۔ کیا آسمانی کتاب میں ان سے عہد نہیں لیا گیا۔ کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر حق بات ہی کہیو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم اب تک توریت میں موجود ہے اور جو کچھ اس میں ہے یہ لوگ پڑھ بھی چکے ہیں مگر نہیں سمجھتے کیونکہ دنیا کا مال و اسباب ان کو مرغوب ہے حالانکہ آخرت کا گھر ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو پرہیزگار ہیں کیا پھر بھی تم عقل نہیں کرتے کیوں تم شعور نہیں کرتے اور جو لوگ کتاب سماوی کو مضبوط پکڑتے ہیں اور نماز اور جو ان پر عبادت بدنی مقرر کی گئی ہے اس کو عمدہ طرح سے گذارتے ہیں وہی مزے سے عیش میں ہوں گے کیونکہ ایسے نیکوں کے اجر ہم ضائع نہیں کرتے یہ بےدینی کی عادت ان میں کوئی نئی نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہے ہم ان کو ہمیشہ اس قبیح عادت سے روکتے رہے اور سمجھاتے رہے جب ہم نے پہاڑ کو ان کے بڑوں کے سروں کے اوپر ہلایا اس حال میں کہ وہ گویا ان پر چھتری کی طرح سایہ تھا۔ اور وہ سمجھے کہ وہ پہاڑ ہم پر گر پڑے گا۔ اس وقت ہم نے حکم دیا کہ جو ہم نے تم کو دیا ہے قوت اور مضبوطی سے اسے پکڑو اور جو کچھ اس میں ہے اسے خوب یاد کرو تاکہ تم پرہیزگار ہوجائو اس سے بھی یہی غرض تھی کہ ان کجروئوں کو نصیحت ہو۔ مگر وہ ایسے ٹیڑھے تھے کہ وقت پر تابعدار اور بعد وقت فرار چنانچہ اس وعدے کے بعد انہوں نے یہی روش اختیار کی اس کا پھل بھی ویسا ہی پایا۔