سورة الاعراف - آیت 12

قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

حق تعالیٰ نے فرمایا تو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کونسا امر مانع ہے (١) جب کہ میں تم کو حکم دے چکا ہوں کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا (٢)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ﴾ ” تجھ کو کیا مانع تھا کہ تو نے سجدہ نہ کیا“ جس کو میں نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا، میں نے اسے وہ شرف اور فضیلت عطا کی جو کسی اور کو عطا نہیں کی، تو نے میرے حکم کی نافرمانی کر کے میری اہانت اور تحقیر کا ارتکاب کیا ﴿قَالَ﴾ ابلیس نے اپنے رب کی مخالفت کرتے ہوئے کہا : ﴿ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ ﴾ ” میں اس سے بہتر ہوں“ پھر اس نے اپنے اس باطل دعوے کی دلیل دیتے ہوئے کہا : ﴿خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ﴾ ” تو نے مجھے آگ سے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے“ اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ وہ مخلوق جو آگ سے پیدا کی گئی ہے اس مخلوق سے افضل ہے، جس کی تخلیق مٹی سے ہے۔ کیونکہ آگ مٹی پر غالب ہے اور اوپر اٹھ سکتی ہے۔ شیطان کا یہ قیاس فاسد ترین قیاس ہے کیونکہ یہ متعدد وجوہ سے باطل ہے۔ (١) یہ قیاس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مقابلے میں ہے کہ آدم کو سجدہ کیا جائے اور جب قیاس نص سے معارض ہو تو وہ باطل ہے۔ کیونکہ قیاس کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ جس معاملے میں نص موجود نہ ہو اس کا حکم منصوص علیہ امور کے احکام کے بالکل قریب اور ان کے تابع ہو۔ رہا وہ قیاس جو منصوص علیہ احکام کے معارض ہو اور اس کو معتبر قرار دینے سے نصوص کا لغو ہونا لازم آتا ہو تو یہ قیاس بدترین قیاس ہے۔ (١) یہ قیاس اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مقابلے میں ہے کہ آدم کو سجدہ کیا جائے اور جب قیاس نص سے معارض ہو تو وہ باطل ہے۔ کیونکہ قیاس کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ جس معاملے میں نص موجود نہ ہو اس کا حکم منصوص علیہ امور کے احکام کے بالکل قریب اور ان کے تابع ہو۔ رہا وہ قیاس جو منصوص علیہ احکام کے معارض ہو اور اس کو معتبر قرار دینے سے نصوص کا لغو ہونا لازم آتا ہو تو یہ قیاس بدترین قیاس ہے۔ (٢) ابلیس کا مجردیہ کہنا ( أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ) ” میں اس (آدم) سے بہتر ہوں“ ابلیس خبیث کے نقص کے لئے کافی ہے۔ اس نے اپنے نقص پر اپنی خودپسندی، تکبر اور بلاعلم اللہ تعالیٰ کی طرف قول منسوب کرنے کو دلیل بنایا اس سے بڑا اور کون سا نقص ہوسکتا ہے؟ (٣) ابلیس نے آگ کو مٹی اور گارے کے مادہ پر فوقیت دے کر جھوٹ کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ مٹی کے مادے میں خشوع، سکون اور سنجیدگی ہے۔ اس مٹی ہی سے زمین کی برکتیں ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً مختلف انواع و اجناس کے درخت اور نباتات وغیرہ۔ اس کے برعکس آگ میں خفت، طیش اور جلانے کی خاصیت ہے۔ اسی لئے شیطان نے اس قسم کے افعال کا ارتکاب کیا اور اسی لئے وہ بلند ترین درجات سے گر کر اسفل السافلین کی سطح پر جا پہنچا۔