سورة الانعام - آیت 145

قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو (١) پھر جو شخص مجبور ہوجائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر پر مشرکین کی مذمت کی کہ انہوں نے حلال کو حرام ٹھہرایا اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا اور ان کے اس قول کا ابطال کیا تو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کے سامنے واضح کردیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا چیز ان پر حرام ٹھہرائی ہے تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حلال ہے اور جو کوئی اس کی تحریم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے وہ جھوٹا اور باطل پرست ہے، کیونکہ تحریم صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول کے توسط سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : ﴿قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ ﴾” آپ کہہ دیجیے کہ میں نہیں پاتا اس وحی میں کہ مجھ کو پہنچی ہے کسی چیز کو حرام، کھانے والے پر جو اس کو کھائے“ یعنی اس کو کھانے کے علاوہ اس سے دیگر فوائد حاصل کرنے یا نہ کرنے سے قطع نظر، میں کوئی چیز نہیں پاتا جس کا کھانا حرام ہو۔ ﴿ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً  ﴾ ” مگر یہ کہ وہ چیز مردار ہو“ مردار وہ جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح کئے بغیر مر گیا ہو۔ یہ مرا ہوا جانور حلال نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ ﴾ (المائدہ :5؍3) ” حرام کردیا گیا تم پر مردار، خون او خنزیر کا گوشت۔ “ ﴿أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا ﴾” یا بہتا ہوا خون“ یہ وہ خون ہے جو ذبیحہ کو ذبح کرتے وقت اس میں خارج ہوتا ہے کیونکہ اس خون کا ذبیحہ کے بدن میں رہنا ضرر رساں ہے۔ جب یہ خون بدن سے نکل جاتا ہے تو گوشت کا ضرر زائل ہوجاتا ہے۔ لفظ کے مفہوم مخالف سے مستفاد ہوتا ہے کہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد جو خون گوشت اور رگوں میں بچ جاتا ہے وہ حلال اور پاک ہے۔ ﴿أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ  ﴾ ” یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے“ یعنی مذکورہ تینوں اشیا گندی ہیں یعنی ناپاک اور مضر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تم پر لطف و کرم کرتے ہوئے اور تمہیں خبائث کے قریب جانے سے بچانے کے لئے ان گندی اشیا کو حرام قرار دے دیا ہے۔ ﴿أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ﴾ یا ذبیحہ کو اللہ کے سوا بتوں اور ان معبودوں کے لئے ذبح کیا گیا ہو جن کی مشرکین عبادت کرتے ہیں۔ یہ فسق ہے اور فسق سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل کر اس کی معصیت میں داخل ہوجانا۔ ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ ﴾” پس اگر کوئی مجبور ہوجائے۔“ یعنی بایں ہمہ اگر کوئی ان حرام اشیا کو استعمال کرنے پر مجبور ہے حاجت اور ضرورت نے اسے ان اشیاء کو کھانے پر مجبور کردیا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں اور بھوک کے باعث اس کو اپنی جان کا خوف ہے ﴿غَيْرَ بَاغٍ  ﴾ ” نافرمانی کرنے والا نہ ہو۔“ یعنی بغیر کسی اضطراری حالت کے اس کو کھانے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ ﴿وَلَا عَادٍ﴾’ ’اور نہ زیادتی کرنے والا ہو“ (عَادٍ) سے مراد ہے ” ضرورت سے زائد کھا کر حد سے تجاوز کرنے والا“ ﴿فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾” تو بلاشبہ تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی جو شخص اس حالت کو پہنچ جائے اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ نرمی کی ہے۔