وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَٰذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَىٰ أَزْوَاجِنَا ۖ وَإِن يَكُن مَّيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ ۚ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ ۚ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور وہ کہتے ہیں کہ جو چیز مویشی کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لئے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہیں۔ اور اگر وہ مردہ ہے تو اس میں سب برابر ہیں۔ (١) ابھی اللہ ان کی غلط بیانی کی سزا دیئے دیتا ہے (٢) بلاشبہ وہ حکمت والا اور بڑا علم والا ہے۔
ان کی کم عقلی پر مبنی آراء میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بعض مویشیوں کو معین کردیتے اور کہتے کہ ان کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ مردوں کے لئے حلال اور عورتوں کے لئے حرام ہے۔ چنانچہ وہ کہتے تھے : ﴿مَا فِي بُطُونِ هَـٰذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا ﴾” جو کچھ ان مویشیوں کے پیٹوں میں ہے، اس کو صرف ہمارے مرد ہی کھائیں گے“ یعنی ان کے لئے حلال ہے اس کے کھانے میں عورتیں شریک نہیں ہوں گی۔ ﴿وَمُحَرَّمٌ عَلَىٰ أَزْوَاجِنَا ﴾ ” اور ہماری عورتوں کو (اس کا کھانا) حرام ہے۔“ یعنی یہ ہماری عورتوں پر حرام ہے۔ مگر یہ اس صورت میں ہے کہ وہ زندہ پیدا ہو۔ اگر مویشی کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ مردہ پیدا ہوا تو اس میں سب شریک ہوں گے یعنی وہ مردوں اور عورتوں سب کے لئے حلال ہے۔﴿سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ ﴾ ” وہ عنقریب سزا دے گا ان کو ان کی غلط بیانیوں کی“ اس لئے کہ انہوں نے اس چیز کو حرام ٹھہرایا جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا تھا اور حرام کو حلال سے موصوف کیا پس اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی شریعت کی مخالفت کی اور پھر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر ڈالا ﴿إِنَّهُ حَكِيمٌ ﴾ ” بے شک وہ حکمت والا ہے۔“ کیونکہ اس نے ان کو مہلت دی اور اس گمراہی کا ان کو اختیار دیا جس میں یہ سرگرداں ہیں ﴿عَلِيمٌ ﴾ ” جاننے والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جانتا ہے وہ ان کی باتوں اور افترا پردازیوں کا بھی خوب علم رکھتا ہے۔ بایں ہمہ وہ ان کو معاف کرتا اور ان کو رزق سے نوازتا ہے۔