قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
آپ یہ فرما دیجئے اے میری قوم! تم اپنی حالت پر عمل کرتے رہو میں بھی عمل کر رہا ہوں (١) سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ اس عالم کا انجام کار کس کے لئے نافع ہوگا یہ یقینی بات ہے کہ حق تلفی کرنے والوں کو کبھی فلاح نہ ہوگی۔
﴿قُلْ ﴾ ” کہہ دیجیے“ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے دی اور ان کے انجام اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں ان کو آگاہ کردیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے سے باز رہے، بلکہ اپنی خواہشات کے پیچھے لگے رہے اور اپنے شرک پر قائم رہے، تو آپ ان سے کہہ دیجیے !﴿يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ ﴾ ” اے میری قوم ! تم کام کرتے رہو، اپنی جگہ پر“ یعنی جس حال میں تم ہو اور جس حال کو تم نے اپنے لیے پسند کرلیا ہے اسی پر قائم رہو ﴿إِنِّي عَامِلٌ ۖ ﴾ ” میں (اپنی جگہ) عمل کئے جاتا ہوں۔“ میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل اور اس کی مرضی کی اتباع کرتا ہوں ﴿فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ﴾” عنقریب تم جان لو گے کہ کس کو ملتا ہے عاقبت کا گھر“ یعنی آخرت کا گھر تمہارے لئے ہے یا میرے لئے اور یہ انصاف کا عظیم مقام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اعمال اور ان پر عمل کرنے والوں کے بارے میں بیان فرما دیا اور نہایت بصیرت کے ساتھ ان اعمال کی جزا بھی ساتھ بیان فرما دی جہاں تصریح سے گریز کرتے ہوئے تلویح سے کام لیا ہے اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ دنیا و آخرت میں اچھا انجام صرف اہل تقویٰ کے لئے ہے۔ آخرت کا گھر اہل ایمان کے لئے ہے اور انبیا و رسل کی لائی ہوئی شریعت سے روگردانی کرنے والوں کا انجام انتہائی برا ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ﴾” یقیناً ظالم فلاح یاب نہیں ہوں گے“ ظالم خواہ اس دنیا سے کتنا ہی فائدہ اٹھا لے، اس کی انتہا اضمحلال اور اتلاف ہے۔ حدیث میں ہے۔ (( إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ )) ” اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کہ جب اس کو پکڑ ليتا ہے تو اسے چھوڑتا نہیں۔ “ [صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ (وکذلک أخذ ربک۔۔۔ الخ) حدیث :4686]