وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُونَ
اور تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ کو بھی چھوڑ دو بلاشبہ جو لوگ گناہ کر رہے ہیں ان کو ان کے کئے کی عنقریب سزا ملے گی۔
یہاں (اثم) سے مراد تمام معاصی ہیں جو بندے کو گناہگار کرتے ہیں یعنی اسے ان امور کے بارے میں گناہ اور حرج میں مبتلا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق سے متعلق ہوتے ہیں۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ظاہری اور باطنی گناہوں کے ارتکاب سے منع کیا ہے یعنی چھپ کر یا علانیہ ان تمام گناہوں سے روکا ہے جو بدن، جوارح اور قلب سے متعلق ہیں۔ بندہ ظاہری اور باطنی گناہوں کو اس وقت تک کامل طور پر ترک نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ بحث و تحقیق کے بعد ان کی معرفت حاصل نہیں کرلیتا۔ بنابریں گناہوں کے بارے میں بحث و تحقیق کرنا، قلب و جوارح کے گناہوں کی معرفت اور ان کے بارے میں علم حاصل کرنا مکلف پر حتمی طور پر فرض ہے اور بہت سے لوگوں پر ان کے گناہ مخفی رہتے ہیں خاص طور پر قلب کے گناہ چھپے رہتے ہیں مثلاً تکبر، خودپسندی اور ریا وغیرہ۔ یہاں تک کہ بندہ ان میں سے بہت سے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے مگر اسے اس کا احساس اور شعور تک نہیں ہوتا اور یہ علم سے اعراض اور عدم بصیرت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ جو لوگ ظاہری اور باطنی گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے اکتساب کے مطابق اور ان کے گناہوں کی قلت و کثرت کے اعتبار سے ان کو سزا دی جائے گی اور یہ سزا آخرت میں ملے گی۔ کبھی کبھی بندے کو دنیا میں سزا دے جاتی ہے اس طرح اس کی برائیوں اور گناہوں میں تخفیف ہوجاتی ہے۔