سورة الانعام - آیت 111

وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھی بھیج دیتے اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے (١) اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو لا کر جمع کردیتے ہیں (٢) تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔ (٣)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اسی طرح ان کا اپنے ایمان کو اپنے ارادے اور خود اپنی مشیت سے معلق کرنا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ کرنا، سب سے بڑی غلطی ہے۔ کیونکہ اگر ان کے پاس بڑی بڑی نشانیاں اور معجزات بھی آجائیں، فرشتے نازل ہو کر رسول کی رسالت کی شہادت دے دیں، ان کے ساتھ مردے باتیں کرنے لگیں اور خود ان کو مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کردیا جائے ﴿ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ ” اور زندہ کردیں ہر چیز کو ان کے سامنے“ حتیٰ کہ وہ ان کے ساتھ باتیں کریں﴿قُبُلًا﴾ ”سامنے“ یعنی ان کے سامنے نظر آتے ہوئے اس چیز کی تصدیق کریں جسے لے کر رسول آیا ہے، تب بھی ان کے حصے میں ایمان نہیں آسکتا، اگر اللہ کی مشیت ان کے ایمان لانے کی نہ ہو۔ مگر ان میں سے اکثر جاہل ہیں اسی لئے انہوں نے اپنے ایمان کو مجرد آیات و معجزات کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ عقل اور علم کا تقاضا تو یہ ہے کہ بندے کا مطلوب و مقصود اتباع حق ہو اور وہ اسے ان طریقوں سے تلاش کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے، حق پر عمل کرے اور اس کی اتباع میں اپنے رب کی مدد طلب کرے۔ اپنے نفس اور اپنی قوت و اختیار پر بھروسہ نہ کرے اور ان آیات و معجزات کا مطالبہ نہ کرے جن کا کوئی فائدہ نہیں۔