سورة الانعام - آیت 95

إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بیشک اللہ تعالیٰ دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے (١) وہ جاندار کو بے جان سے نکال لاتا ہے (٢) اور وہ بے جان کو جاندار سے نکالنے والا ہے (٣) اللہ تعالیٰ یہ ہے، سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کمال، عظمت سلطان، قوت اقتدار، وسعت رحمت، بے پایاں فضل و کرم اور اپنی مخلوق کے ساتھ انتہائی عنایت کے بارے میں، خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿إِنَّ اللَّـهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ﴾ ” بے شک اللہ پھاڑ نکلتا ہے دانہ اور گٹھلی“ یہاں دانہ ہرقسم کے اناج کے دانوں کو شامل ہے جن کو عام طور پر لوگ کاشت کرتے ہیں اور وہ بھی جن کو کاشت نہیں کیا جاتا مثلاً وہ دانے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے صحراؤں اور بیابانوں میں بکھیر دیئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کھیتوں اور مختلف انواع و اشکال و منفعت والی نباتات کے بیجوں کو پھاڑتا ہے اور درختوں کی نوع میں کھجور اور دیگر پھلوں کی گٹھلی کو جس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق، انسان، مویشی اور دیگر جانور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ بیج اور گٹھلی سے جو کچھ اگاتا ہے یہ اسے کھاتے ہیں اور اس سے اپنی خوراک اور ہر قسم کی منفعت حاصل کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس میں مقرر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل و احسان کی جھلک دکھاتا ہے جس سے عقل ششدر اور بڑے بڑے اصحاب فضیلت حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ ان کو اپنی انوکھی صنعت گری اور اپنی حکمت کا کمال دکھاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ اسے پہچانتے ہیں اور اسے ایک مانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ حق ہے اور اس کے سواہر ہستی کی عبادت باطل ہے۔ ﴿ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ ﴾ ” وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے“ مثلاً وہ منی سے حیوان اور انڈے سے چوزہ پیدا کرتا ہے، دانے اور گٹلھی سے اناج اور درخت پیدا کرتا ہے ﴿وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ ﴾ ” اور مردہ کو نکالتا ہے“ میت سے مراد وہ تمام اشیا ہیں جو نشو و نما کی صلاحیت سے محروم ہوں یا ان کے اندر روح نہ ہو ﴿مِنَ الْحَيِّ﴾ ” زندہ سے“ مثلاً درختوں اور کھیتیوں سے گٹھلیاں اور دانے پیدا کرتا اور پرندے سے انڈہ نکالتا ہے۔ ﴿ذَٰلِكُمُ﴾ ”وہ ہستی‘‘ جو یہ تمام افعال سر انجام دیتی ہے اور ان اشیاء کی تخلیق اور تدبیر میں منفرد ہے وہ ﴿ اللَّـهُ رَبَّكُمُ﴾ ” اللہ ہے، رب تمہارا“ تمام مخلوق پر فرض ہے کہ وہ اس کی الوہیت و عبودیت کو تسلیم کرے جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام جہانوں کی ربوبیت فرمائی اور اپنے فضل و کرم سے ان کو غذا مہیا کی ﴿فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ﴾” پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟“ یعنی تم کہاں پھرے جاتے ہو اور جو اس شان کا مالک ہے اس کی عبادت کو چھوڑ کر ایسی ہستیوں کی عبادت کرتے ہو جو خود اپنے لئے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور دوبارہ اٹھانے پر قادر نہیں۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے غذاؤں کی تخلیق کے مادے کا ذکر فرمایا تو اب اس احسان کا ذکر کیا جو اس نے مساکن مہیا کر کے مخلوق پر کیا ہے اور ہر وہ چیز تخلیق کر کے جس کے بندے محتاج ہوتے ہیں، مثلاً روشنی، تاریکی اور وہ تمام منافع اور مصالح جو اس پر مترتب ہوتے ہیں۔