وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَٰكِن ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اور جو لوگ پرہیزگار ہیں ان پر ان کی باز پرس کا کوئی اثر نہ پہنچے گا (١) اور لیکن ان کے ذمہ نصیحت کردینا ہے شاید وہ بھی تقویٰ اختیار کریں (٢)۔
یہ نہی اور ممانعت اس شخص کے لئے ہے جو ایسے لوگوں کی مجلس میں شریک ہوتا ہے اور تقویٰ کا دامن چھوڑ کر ان کے قول اور عمل محرم میں خود بھی شریک ہوجاتا ہے یا ان کے غیر شرعی افعال و اقوال پر خاموشی اختیار کرتا ہے اور ان پر نکیر نہیں کرتا، لیکن اگر وہ تقویٰ کا التزام کرتے ہوئے مجلس میں شریک ہو، شرکائے مجلس کو نیکی کا حکم دے، اس برائی اور بری گفتگو سے روکے جو اس مجلس میں صادر ہو، جس سے یہ برائی زائل ہوجائے یا اس میں تخفیف ہوجائے تو ایسی مجلس میں شریک ہونے میں کوئی حرج ہے نہ کوئی گناہ۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَـٰكِن ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾ ” اور پرہیز گاروں پر نہیں ہے جھگڑنے والوں کے حساب میں سے کوئی چیز لیکن ان کے ذمے نصیحت کرنی ہے، تاکہ وہ ڈریں۔“ یعنی صرف اس لئے وہ ان کو وعظ و نصیحت کرے کہ شاید وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر جائیں۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ وعظ و نصیحت کرنے والا ایسا اسلوب کلام استعمال کرے جو مقصود تقویٰ کے حصول میں زیادہ ممد اور کارگر ہو اور اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر وعظ و نصیحت سے برائی میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہو تو وعظ و نصیحت ترک کرنا واجب ہے، کیونکہ جو وعظ و نصیحت مطلوب و مقصود کے مخالف ہو، تو اس کو ترک کرنا بھی مقصود ہے۔