وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَىٰ أَجَلٌ مُّسَمًّى ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور وہ ایسا ہے کہ رات میں تمہاری روح کو (ایک گونہ) قبض کردیتا ہے (١) اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو جانتا ہے پھر تم کو جگا اٹھاتا ہے (٢) تاکہ میعاد معین تمام کردی جائے (٣) پھر اسی کی طرف تم کو جانا ہے پھر تم کو بتلائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
یہ آیت کریمہ تمام تر توحید الوہیت کے تحقق، مشرکین کے خلاف دلائل اور اس بیان پر مشتمل ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی محبت، تعظیم، اجلال اور اکرا م کا مستحق ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ اکیلا ہی ہے جو بندوں کی، ان کے سوتے جاگتے میں تدبیر کرتا ہے، وہ رات کو انہیں وفات یعنی نیند کی وفات دیتا ہے، ان کی حرکات پر سکون طاری ہوجاتا ہے اور ان کے بدن آرام کرتے ہیں، نیند سے بیداری کے بعد وہ ان کو دوبارہ زندہ کرتا ہے تاکہ وہ اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں تصرف کریں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اور وہ جن اعمال کا اکتساب کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان میں اس طرح تصرف کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اپنی مقررہ مدت پوری کرلیتے ہیں۔ وہ اپنی اس تدبیر کے ذریعے سے ان کی مدت مقررہ کا فیصلہ کرتا ہے، یعنی مدت حیات اور اس کے بعد ایک اور مدت ہے اور وہ ہے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ﴾ ” پھر اس کی طرف ہی تمہارا لوٹنا ہے“ اس کے سوا اور کسی کی طرف لوٹنا نہیں ہے۔ ﴿ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾” پھر وہ تم کو تمہارے عمل جو تم کرتے ہو، بتائے گا۔“ نیک اور بد جو کام بھی تم کرتے رہے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے آگاہ فرمائے گا۔