وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنظَرُونَ
اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اور اگر ہم فرشتہ بھی بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہوجاتا۔ پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی (١)۔
﴿ وَقَالُوا ﴾ یعنی وہ تلبیس کے طور پر کہتے ہیں جو معقول سے لاعلمی اور جہالت پر مبنی ہے ﴿ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ﴾” ان پر فرشتہ کیوں نازل نہ ہوا؟“ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ اترا جو اس کی مدد کرتا اور اس کام میں اس کی معاونت کرتا، کیونکہ وہ اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بشر ہیں اور رسالت تو فرشتوں میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اس کی رحمت اور اپنے بندوں کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ ہے کہ اس نے انہی میں سے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا تاکہ جو کچھ وہ لے کر مبعوث ہوتا ہے اس پر ایمان، علم و بصیرت کی بنا پر اور بالغیب ہو۔﴿وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَكًا ﴾ ” اگر ہم فرشتہ نازل کرتے۔“ اگر ہم نے اپنی رسالت کے ساتھ کسی فرشتے کو بھیجا ہوتا تو یہ ایمان معرفت حق کی بنا پر نہ ہوتا بلکہ ایک ایسا ایمان ہوتا جو مشاہدہ سے صادر ہوتا ہے اور ایسا ایمان اکیلا کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ یہ اس صورت میں ہے کہ اگر وہ ایمان لے آئیں مگر غالب یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اگر وہ ایمان نہ لائے ﴿ لَّقُضِيَ الْأَمْرُ﴾ ” تو طے ہوجائے قصہ“ تو ان کی فوری ہلاکت اور عدم مہلت کا فیصلہ ہوجائے گا۔ یہ اس شخص کے بارے میں سنت الٰہی ہے جو حسب خواہش معجزات کا مطالبہ کرتا ہے اور ان پر ایمان نہیں لاتا۔ اس لئے ان کی طرف رسول بشری کو آیات بینات کے ساتھ مبعوث کرنا، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ یہ بندوں کے لئے بہتر اور نرم ہیں، نیز کفار اور جھٹلانے والوں کو مہلت دینا، ان کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے۔ پس ان کا فرشتے اتارنے کا مطالبہ اگر وہ جانیں تو ان کے لئے بہت برا ہے۔