إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ ۖ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
وہ وقت یاد کے قابل ہے جب کہ حواریوں نے عرض کیا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما دے؟ (١) آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو (٢)۔
﴿إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ﴾” جب حواریوں نے کہا، اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تیرا رب طاقت رکھتا ہے کہ وہ ہم پر آسمان سے بھرا ہوا خوان اتارے؟“ یعنی ایسا دستر خوان جس پر کھانا لگا ہوا ہے۔۔۔ یہ مطالبہ اس بنا پر نہیں تھا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت میں کوئی شک تھا، بلکہ یہ درخواست تھی جو عرض اور ادب کے پیرائے میں تھی۔ چونکہ من مانے معجزات کا مطالبہ اطاعت حق کے منافی ہوتا ہے اور یہ کلام حواریوں سے صادر ہوا تھا اور یہ چیز ان کو وہم میں ڈال سکتی تھی اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ اتَّقُوا اللَّـهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴾ ” اللہ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو‘‘ کیونکہ مومن کا سرمایہ ایمان اسے تقویٰ کے التزام اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت پر آمادہ کرتا رہتا ہے اور وہ بغیر جانے بوجھے معجزات کا مطالبہ نہیں کرتا کیونکہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ حواریوں نے عرض کیا کہ ان کا مطالبہ اس معنی میں نہیں ہے بلکہ وہ تو نیک مقاصد رکھتے ہیں، ان کا یہ مطالبہ ضرورت کے تحت ہے