يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ قدرے شکار سے تمہارا امتحان کرے گا (١) جن تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گے (٢) تاکہ اللہ تعالیٰ معلوم کرلے کون شخص اس سے بن دیکھے ڈرتا ہے سو جو شخص اس کے بعد حد سے نکلے گا اس کے واسطے دردناک عذاب ہے۔
اللہ تعالیٰ کا بندوں پر یہ فضل و احسان ہے کہ اس نے ان کو خبر دی ہے کہ وہ قضا و قدر کے اعتبار سے یہ فعل سر انجام دے گا، تاکہ وہ اس کی اطاعت کریں اور بصیرت کے ساتھ آگے آئیں اور جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ﴾” اے ایمان والو !“ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کا امتحان لے ﴿لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ﴾ ” البتہ ضرور آزمائے گا تم کو اللہ ایک بات سے ایک شکار میں“ یعنی کسی زیادہ بڑی چیز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں آزمائے گا بلکہ اپنے لطف و کرم کی بنا پر تخفیف کرتے ہوئے بہت معمولی سی چیز کے ذریعے سے تمہارا امتحان لے گا۔ یہ شکار ہے جس کے ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں آزمائے گا﴿تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ﴾” جس پر پہنچتے ہیں تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے“ یعنی تم اس کے شکار پر متمکن ہوتے ہوتا کہ اس طرح آزمائش مکمل ہوجائے۔ اگر ہاتھ یا نیزے کے ذریعے سے شکار قدرت و اختیار میں نہ ہو تو آزمائش کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آزمائش کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ لِيَعْلَمَ اللّٰهُ﴾” تاکہ جان لے اللہ“ یعنی ایسا جاننا جو مخلوق پر ظاہر ہو اور اس پر ثواب و عذاب مترتب ہوتا ہو ﴿مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ﴾ ” کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے۔“ پس جس چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے روکا ہے، اس پر قدرت و اختیار ہونے کے باوجود وہ اس سے رک جاتا ہے، تو وہ اسے بہت زیادہ اجر عطا فرماتا ہے، اس کے برعکس وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ سے غائبانہ طور پر ڈرتا ہے نہ اس کی نافرمانی سے باز آتا ہے، اس کے سامنے شکار آجاتا ہے، اگر اس پر قابو پا سکتا ہے تو اس کو شکار کرلیتا ہے۔ ﴿فَمَنِ اعْتَدَىٰ﴾ ” تو جو زیادتی کرے۔“ یعنی تم میں سے جو کوئی حد سے تجاوز کرے گا ﴿بَعْدَ ذٰلِكَ﴾ ” اس کے بعد“ یعنی اس بیان کے بعد جس نے ہر قسم کی حجت کو باطل کر کے راستے کو واضح کردیا ﴿فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” پس اس کے لئے انتہائی درد ناک عذاب ہے“ جس کا وصف اللہ کے سوا کوئی بیان نہیں کرسکتا۔ کیونکہ حد سے تجاوز کرنے والے اس شخص کے لئے کوئی عذر نہیں۔ اعتبار اس شخص کا ہے جو لوگوں کی عدم موجودگی میں غائبانہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ رہا لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے خوف کا اظہار کرنا تو یہ کبھی کبھی لوگوں کے خوف کی وجہ سے بھی ہوتا ہے تب اس پر کوئی ثواب نہیں۔