كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے (١) جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً بہت برا تھا۔
ان کے وہ گناہ جن کی وجہ سے ان پر سزا ضروری ٹھہری اور جن کی بنا پر ان پر عقوبات واقع ہوئیں، یہ تھے کہ وہ ﴿كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ﴾ ” برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے۔“ یعنی وہ برائیوں کا ارتکاب کرتے تھے اور برائیوں سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ پس وہ لوگ جو برائی کرتے تھے اور وہ جو برائی نہیں کرتے تھے مگر قدرت رکھنے کے باوجود برائی سے روکتے نہیں تھے۔ دونوں قسم کے لوگ اسی مشترک سزا کے مستحق قرار پائے۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو حقیر سمجھتے تھے اور گناہ کا ارتکاب ان کے لئے بہت معمولی بات تھی۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرتے تو اس کی ہتک پر انہیں غیرت آتی اور اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے پر وہ بھی ناراض ہوتے اور قدرت ہونے کے باوجود برائی پر خاموش رہنا اور اس پر نکیر نہ کرنا، سزا کا موجب ہے کیونکہ اس میں بہت بڑے مفاسد پنہاں ہیں، مثلاً (١) برائی پر سکوت اختیار کرنا بذات خود برائی ہے خواہ سکوت اختیار کرنے والا خود برائی میں ملوث نہ ہو۔ اس لئے کہ جس طرح معصیت سے اجتناب فرض ہے اسی طرح برائی کے مرتکب پر نکیر کرنا ضروری ہے۔ (٢) جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ یہ چیز گناہوں کو معمولی سمجھنے اور ان کو زیادہ اہمیت نہ دینے پر دلالت کرتی ہے۔ (٣) اس طرح فساق و فجار میں کثرت سے گناہ کرنے کی جرأت بڑھ جاتی ہے۔ جب ان کو گناہوں سے روکا نہ جائے تو شر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ دینی اور دنیاوی مصائب بڑھ جاتے ہیں اور شوکت و غلبہ شر پر لوگوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ اہل خیر کمزور پڑجاتے ہیں اور وہ اہل شرکا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ حتی کہ انہیں اتنی سی قدرت بھی حاصل نہیں رہتی جتنی ابتدا میں تھی۔ (٤) منکر پر نکیر ترک کرنے سے علم مٹ جاتا ہے اور جہالت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ جب معصیت بہت سے لوگوں سے بتکرار صادر ہوتی ہے اور اس پر اہل علم اور اہل دین لوگوں کی طرف سے نکیر نہیں ہوتی تو اس کے بارے میں گمان گزرتا ہے کہ یہ معصیت نہیں، بسا اوقات جاہل لوگ اسے مستحسن عبادت سمجھ لیتے ہیں۔ اس سے بڑی کونسی برائی ہوسکتی ہے کہ کسی ایسی چیز کو حلال قرار دے دیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ نفوس پر حقائق بدل جائیں اور انہیں باطل حق نظر آنے لگے۔ (٥) نافرمان لوگوں کی معصیت پر سکوت سے بسا اوقات معصیت لوگوں کے دلوں میں مزین ہوجاتی ہے اور برائی میں لوگ ایک دوسرے کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس لئے کہ انسان اپنے گروہ اور ابنائے جنس کی پیروی کا شیفتہ ہوتا ہے۔ چونکہ یہ برائیوں پر سکوت کی جزا ہے اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے منصوص فرمایا کہ کفار بنی اسرائیل انہی لوگوں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانی اور تعدی کی بنا پر ان پر لعنت کی اور ان برائیوں میں سے اس برائی کو مخصوص ﴿ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾” البتہ برا ہے جو وہ کرتے تھے۔ “