قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
کہہ دیجئے اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو اور زیادتی نہ کرو (١) اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکا بھی چکے ہیں (٢) اور سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : ﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ ﴾ ” اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلونہ کرو“ یعنی حق سے تجاوز کر کے باطل میں نہ پڑو۔ ان کا یہ قول حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں ان کے اس قول کی مانند ہے جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ یہ غلو بعض مشائخ کے بارے میں ان کے غلو کی مانند ہے۔ ایسا انہوں نے ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے کیا، جن کی بابت کہا گیا تھا ﴿وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ﴾ ” اور ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جو (خود بھی) گمراہ ہوئے اس سے پہلے۔“ یعنی ان کی گمراہی سامنے آچکی ہے۔ ﴿وَأَضَلُّوا كَثِيرًا ﴾ ” اور (دوسرے) بہت سوں کو گمراہ کیا۔“ یعنی جس دین پر یہ کار بند ہیں اس کی طرف دعوت دے کر بہت سے لوگوں کو گمراہ کرچکے ہیں ﴿وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ﴾ ” اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔“ یعنی راہ اعتدال سے بھٹک گئے پس گمراہ ہونے اور دوسروں کو گمراہ کرنے، دونوں برائیوں کو انہوں نے جمع کرلیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ائمہ ضلالت ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ڈرایا ہے اور ان کی مہلک خواہشات اور گمراہ کن آراء سے بچنے کا حکم دیا ہے۔