سورة المآئدہ - آیت 71

وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِّنْهُمْ ۚ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور سمجھ بیٹھے کہ کوئی پکڑ نہ ہوگی پس اندھے بہرے بن بیٹھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر اندھے بہرے ہوگئے (١) اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو بخوبی جانتا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ ﴾” اور یہ خیال کرتے تھے کہ کوئی آفت نہیں آنے کی۔“ یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی نافرمانی اور ان کی تکذیب کی وجہ سے ان پر عذاب نہیں آئے گا نہ ان کو سزا دی جائے گی اور وہ اپنے باطل پر ہمیشہ قائم رہیں گے ﴿فَعَمُوا وَصَمُّوا﴾ ” پس وہ (حق دیکھنے سے) اندھے اور (حق بولنے سے) گونگے ہوگئے“﴿ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ﴾ ” پھر اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی“ یعنی پھر اللہ تعالیٰ نے ان لغزشوں کو نظر انداز کردیا جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پاس توبہ کی اور اس کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی ﴿ ثُمَّ﴾پھر انہوں نے اس توبہ پر دوام نہ کیا یہاں تک کہ ان کے اکثر لوگ بدترین احوال کی طرف پلٹ گئے ﴿عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِّنْهُمْ ۚ﴾ ” ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے۔“ یعنی انہی اوصاف کے ساتھ وہ پھر اندھے اور گونگے ہوگئے۔ ان میں سے بہت کم لوگ اپنی توبہ اور ایمان پر قائم رہے﴿ وَاللّٰهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ﴾ ” اور اللہ وہ جو کچھ کرتے ہیں، اس کو دیکھتا ہے“ پس اللہ تعالیٰ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کی جزا دے گا۔ اگر اچھا عمل ہوا تو اچھی جزا ہوگی اور اگر برا عمل ہوا تو بری جزا ہوگی۔