وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ
اور اگر یہ لوگ توراۃ و انجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے ان کے پورے پابند رہتے (١) تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے (٢) ایک جماعت تو ان میں سے درمیانہ روش کی ہے، باقی ان میں سے بہت سے لوگوں کے برے اعمال ہیں۔ (٣)
﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ﴾ ” اور اگر وہ قائم کرتے تو رات، انجیل اور اس کو جو نازل کیا گیا ان پر، ان کے رب کی طرف سے“ یعنی اگر وہ تورات و انجیل کے احکام کو قائم کرتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو توجہ دلائی اور ان کو ترغیب دی ہے۔ تو رات و انجیل کو قائم کرنے سے مراد ان امور پر ایمان لانا ہے جن کی طرف یہ دونوں کتابیں دعوت دیتی ہیں۔ یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان لانا۔ اگر وہ اس عظیم نعمت کو قائم کرتے جس کو ان کے رب نے ان کی طرف نازل فرمایا ہے یعنی ان کی خاطر اور ان کے ساتھ اعتنا کی بنا پر اس نعمت کو ان کی طرف نازل کیا ہے ﴿لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ ﴾ ” تو وہ کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے“ یعنی اللہ تعالیٰ ان پر رزق کے دروازے کھول دیتا، آسمان سے ان پر بارش برساتا اور زمین ان کے لئے فصلیں اگاتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ﴾(الاعراف :7؍96) ” اگر بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ “ ﴿مِّنْهُمْ ﴾ ” ان میں سے“ یعنی اہل کتاب میں سے ﴿أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ﴾ ” ایک گروہ ہے سیدھی راہ پر“ یعنی ایک گروہ ایسا بھی ہے جو تورات و انجیل پر عامل ہے مگر اس کا عمل قوی اور نشاط انگیز نہیں ہے۔ ﴿وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ﴾ ” اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اعمال برے ہیں۔“ یعنی ان میں برائیوں کا ارتکاب کرنے والے بہت زیادہ ہیں اور نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے بہت کم ہیں۔