إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
(مسلمانوں)! تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اسکا رسول ہے اور ایمان والے ہیں (١) جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور رکوع (خشوع و خضوع) کرنے والے ہیں۔
اللہ تبار ک و تعالیٰ نے جب یہود و نصاریٰ وغیرہ کفار کی دوستی سے روکا اور ذکر فرمایا کہ ان کی دوستی کا انجام واضح خسارہ ہے۔ جس کی دوستی متعین اور واجب ہے، اب اس کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے اس کے فائدے اور مصلحت کا ذکر کیا ہے﴿إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ﴾ ”تمہارا دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول ہی ہے“ اللہ تعالیٰ کی ولایت (دوستی) ایمان اور تقویٰ کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے جو کوئی صاحب ایمان اور متقی ہے وہ اللہ کا ولی، یعنی دوست ہے اور جو اللہ کا دوست ہے وہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دوست ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست بناتا ہے تو اس دوستی کی تکمیل یہ ہے کہ اللہ جن کو دوست بناتا ہے یہ بھی انہی کو دوست بنائے اور وہ ہیں اہل ایمان جو ایمان کے ظاہری اور باطنی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور معبود کے لئے دین کو خالص کرتے ہیں، یعنی نماز کو اس کی تمام شرائط و فرائض اور اس کو مکمل کرنے والے امور کے ساتھ قائم کرتے ہیں، مخلوق کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں اور اپنے اموال میں سے اپنے میں سے مستحق لوگوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں۔﴿وَهُمْ رَاكِعُونَ﴾” اور ( اللہ کے آگے) جھکتے ہیں۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے خضوع اور تذلل اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا﴾ میں حصر کا اسلوب دلالت کرتا ہے کہ ان مذکورلوگوں کی دوستی پر اقتصار کرنا اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں سے برأت کا اظہار کرنا ضروری ہے۔