وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو (١) ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا، ان میں سے ایک کی نذر قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی (٢) تو کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔
یعنی لوگوں کے سامنے قصہ بیان کر اور ان کو اس جھگڑے کے بارے میں بتا جو آدم کے دو بیٹوں کے درمیان ہوا تھا یہ اس طرح تلاوت کرے کہ اصحاب اعتبار اسے جھوٹا نہیں بلکہ سچا اور اسے کھیل تماشا نہیں بلکہ ایک انتہائی سنجیدہ واقعہ گردانیں اور ظاہر بات یہ ہے کہ آدم کے ” دو بیٹوں“ سے مراد صلبی بیٹے ہیں، جیسا کہ آیت کریمہ کا ظاہر اور اس کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے اور یہی جمہور مفسرین کا قول ہے۔ یعنی ان دونوں بیٹوں کا قصہ بیان کر جبکہ انہوں نے تقرب کے لئے قربانی کی جس نے انہیں ذکر کردہ حالت تک پہنچایا۔ ﴿إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا ﴾ ”جب ان دونوں نے قربانی پیش کی۔“ یعنی دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطر کچھ قربانی پیش کی ﴿فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ ﴾ ” پس ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نامقبول“ ان میں سے جس کی قربانی قبول نہ ہوئی اسے آسمان سے کسی خبر کے ذریعے سے معلوم ہوا یا سابقہ امتوں میں عادت الٰہی کے مطابق قربانی کے قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آگ نازل ہو کر قربانی کو جلا ڈالتی تھی۔ ﴿قَالَ ﴾ وہ بیٹا جس کی قربانی قبول نہ ہوئی تھی حسد اور تعدی کی بنا پر دوسرے بیٹے سے بولا : ﴿لَأَقْتُلَنَّكَ ﴾” میں تجھے قتل کر کے رہوں گا۔“ دوسرے بیٹے نے نہایت نرمی سے اس سے کہا :﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ﴾ ” اللہ صرف متقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے“ اس میں میرا کون سا گناہ اور کون سا جرم ہے جو تجھ پر میرے قتل کو واجب کرتا ہے۔ سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں جس سے ڈرنا مجھ پر، تجھ پر اور ہر ایک پر فرض ہے۔ اس آیت کریمہ میں ” متقین“ کی تفسیر میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ یہاں اس سے مراد ہے عمل میں اللہ تعالیٰ کی خاطر تقویٰ اختیار کرنے والے یعنی ان کا عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہو۔