قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ
انہوں نے جواب دیا کہ اے موسیٰ وہاں تو زور آور سرکش لوگ ہیں اور جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہم تو ہرگز وہاں نہ جائیں گے ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں پھر تو ہم (بخوشی) چلے جائیں گے۔ (١)
انہوں نے (اس کے جواب میں) موسیٰ علیہ السلام کو ایک ایسا جواب دیا جو ان کے ضعف قلب، ضعف جسم اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بارے میں عدم اہتمام پر دلالت کرتا ہے ﴿يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ ﴾” اے موسیٰ! اس میں ایک زبردست قوم ہے“ یعنی بہت طاقتور اور بہادر لوگ ہیں یعنی اس لئے وہ اس ملک میں ہمارے داخل ہونے سے موانع میں سے ہیں ﴿ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ﴾” اور ہم اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ وہ اس میں سے نکل جائیں۔ پس اگر وہ اس میں سے نکل جائیں، تو ہم اس میں داخل ہوجائیں گے“ اور ان کا یہ قول ان کی بزدلی اور قلت یقین پر دلالت کرتا ہے۔ ورنہ اگر وہ عقلمند ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ وہ بھی سب کے سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور طاقتور وہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی اعانت سے نواز دے، کیونکہ اللہ کی اعانت و توفیق کے بغیر کسی کے پاس کوئی قوت و اختیار نہیں، نیز انہیں یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان کو ضرور فتح نصرت سے نوازا جائے گا، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے ساتھ فتح ونصرت کا خاص وعدہ کر رکھا ہے۔