وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ
اور یاد کرو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا، کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کیا کہ اس نے تم سے پیغمبر بنانے اور تمہیں بادشاہ بنا دیا (١) اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا (٢)۔
اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ الصلوۃ السلام اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کی قوم کی غلامی سے نجات دلا کر ان پر احسان فرمایا چنانچہ موسیٰ اور ان کی قوم نے اپنے وطن بیت المقدس واپس جانے کا قصد کیا اور وہ بیت المقدس کے قریب پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر دشمن کے خلاف جہاد فرض کردیا تاکہ وہ ان سے اپنے علاقے خالی کروائیں۔ موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام نے ان کو وعظ و تذکیر کی تاکہ وہ جہاد کے عزم پر قائم رہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ﴿اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ﴾” تم پو اللہ نے جو احسان کئے ہیں انہیں یاد کرو۔“ یعنی اپنے دل اور زبان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر اس کی محبت کا باعث بنتا ہے اور عبادت کے لئے نشاط پیدا کرتا ہے ﴿إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ ﴾ ” جب پیدا کئے اس نے تمہارے اندر نبی“ جو تمہیں ہدایت کی طرف بلاتے ہیں اور تمہیں ہلاکت سے ڈراتے ہیں اور تمہیں ابدی سعادت کے حصول پر آمادہ کرتے ہیں اور تمہیں وہ کچھ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے﴿وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا ﴾” اور تم کو بادشاہ بنایا“ تم اپنے معاملات کے خود مالک تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دشمن کی غلامی سے نجات دلائی اور تم اپنے معاملات کے خود مالک بن گئے اور تمہارے لئے اپنے دین کو قائم کرنا ممکن ہوگیا۔ ﴿وَآتَاكُم ﴾” اور تم کو عنایت کیا“ یعنی تمہیں دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا کیں ﴿مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴾ ” جو اس نے جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیں“ کیونکہ وہ اس زمانے میں منتخب قوم تھی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ باعزت تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو وہ نعمتیں عطا کیں جو کسی اور کو عطا نہیں کیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ نعمتیں یاد دلائیں جو ایمان، اس کے ثبات، جہاد پر ان کی ثابت قدمی اور جہاد کے لئے آگے بڑھنے کی موجب ہیں۔