الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے (١) اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال، اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں (٢) جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے طیبات کی حلت کو مکرر بیان فرمایا۔ اس میں بندوں کو اس کا شکر ادا کرنے اور کثرت سے ذکر کرنے کی ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ان چیزوں کو مباح فرمایا جن کے وہ سخت محتاج تھے اور وہ ان طیبات سے فائدے حاصل کرتے ہیں۔ ﴿وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ ﴾” اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے۔“ یعنی اے مسلمانو ! تمہارے لئے یہودیوں اور عیسائیوں کے ذبیحے حلال ہیں اور باقی کفار کے ذبیحے حلال نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اہل کتاب انبیائے کرام اور کتابوں سے منسوب ہیں اور تمام انبیائے کرام غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی تحریم پر مفق ہیں، کیونکہ یہ شرک ہے۔ پس یہود و نصاریٰ بھی غیر اللہ کے نام پر ذبیحہ کی حرمت کے قائل ہیں، اس لئے دیگر کفار کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ حلال قرار دیا گیا ہے اور یہاں ان کے طعام سے مراد ان کا ذبیحہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ طعام جو ذبیحہ کے زمرے میں نہیں آتا مثلاً غلہ اور پھل وغیرہ تو اس میں اہل کتاب کی کوئی خصوصیت نہیں۔ غلہ اور پھل تو حلال ہیں، اگرچہ وہ اہل کتاب کے علاوہ کسی اور کا طعام ہوں۔ نیز طعام کو ان کی طرف مضاف کیا گیا ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ وہ ان کا ذبیحہ ہونے کے سبب سے ” ان کا کھانا“ ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اضافت تملیک کے لئے ہے اور یہ کہ اس سے مراد وہ کھانا ہے، جس کے وہ مالک ہیں، کیونکہ غصب کے پہلو سے یہ بھی حلال نہیں خواہ مسلمانوں ہی کا ہو۔ ﴿وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ﴾ ” اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے۔“ اے مسلمانو ! اگر تم اپنا کھانا اہل کتاب کو کھلاؤ تو یہ ان کے لئے حلال ہے۔ ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ ﴾ ” اور آزاد اور عفت مآب مومن عورتیں (تمہارے لئے حلال ہیں) “ ﴿ِوَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ ﴾” اور آزاد پاک دامن اہل کتاب کی عورتیں۔“ یعنی یہود و نصاریٰ کی آزاد عفت مآب عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تخصیص کرتی ہے ﴿وَ لَا تَنْکِحُوا المُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ﴾ (البقرہ :2؍221) ” اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ “ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ مومن لونڈیوں کا آزاد مردوں کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔ لیکن اہل کتاب لونڈیوں کا نکاح، آزاد مومن مردوں کے ساتھ مطلقاً حرام ہے اور اس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ﴾ (النساء :4؍ 25) ” یعنی ان لونڈیوں سے نکاح کرلو جو مومن ہیں۔“ اگر مسلمان عورتیں لونڈیاں ہوں، تو آزاد مردوں کے ساتھ ان کے نکاح کے لئے دو شرائط ہیں۔ (١) مرد آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ (٢) عدم نکاح کی صورت میں اسے حرام میں پڑنے کا خدشہ ہو۔ رہی فاجر عورتیں، جو زنا سے نہیں بچتیں، ان کے ساتھ نکاح جائز نہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا اہل کتاب سے تعلق رکھتی ہوں جب تک کہ وہ حرام کاری سے تائب نہ ہوجائیں۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿ الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً ﴾(النور :24؍ 3) ” زانی مرد نکاح نہیں کرتا مگر زانی عورت یا مشرک عورت کے ساتھ ہی۔ “ ﴿إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ﴾” جب کہ ان کا مہر دے دو۔“ یعنی جب تم ان کے مہر ادا کر دو تو ہم نے ان کے ساتھ تمہارا نکاح جائز قرار دے دیا ہے اور جس کا یہ ارادہ ہو کہ وہ مہر ادا نہیں کرے گا تو وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں ہے۔ اگر عورت سمجھ دار ہے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ خود اسے مہر ادا کیا جائے ورنہ شوہر اس کے سرپرست کو مہر ادا کرے۔ حق مہر کی عورتوں کی طرف اضافت دلالت کرتی ہے کہ عورت اپنے تمام حق مہر کی خود مالک ہوتی ہے اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں۔ سوائے اس کے کہ عورت خود اپنے شوہر کو یا اپنے ولی (سرپرست) وغیرہ کو یہ مہر عطا کر دے۔ ﴿مُحْصِنِينَ ﴾ ” اور عفت قائم رکھنی مقصود ہو۔“ یعنی اے شوہرو ! اس حال میں کہ تم اپنی بیویوں کی عفت کی حفاظت کر کے ان کو پاک باز رکھو ﴿غَيْرَ مُسَافِحِينَ﴾ ” نہ کہ اس حال میں کہ تم ہر ایک کے ساتھ زنا کرتے پھرو“ ﴿وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ﴾اور نہ اس حالت میں کہ تم اپنی معشوقاؤں کے ساتھ بدکاری کرو (اخدان) سے مراد ہے معشوقاؤں کے ساتھ زنا کرنا۔ زمانہ جاہلیت میں زنا کاروں کی دو اقسام تھیں۔ (١) کسی بھی عورت کے ساتھ زنا کرنے والے کو(مُسَافِحِينَ) کہا جاتا ہے۔ (٢) صرف اپنی محبوبہ کے ساتھ زنا کرنے والے (أَخْدَان) ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ دونوں صورتیں پاک دامنی کے منافی ہیں اور یہ کہ نکاح کی شرط ہے کہ مرد زنا کاری سے دامن بچانے والا ہو۔ ﴿وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ﴾ ” اور جو منکر ہوا ایمان سے، تو ضائع ہوگئے عمل اس کے“ جو کوئی اللہ تعالیٰ اور ان چیزوں کے ساتھ کفر کرتا ہے جن پر ایمان لانا فرض ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کی کتابیں اور اس کے انبیاء و رسل اور شریعت کے بعض امور۔۔۔ اور وہ اسی کفر کی حالت میں مر جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال اکارت چلے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ﴾(البقرۃ:2؍217) ” اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر کر کافر ہوجائے اور وہ کفر کی حالت میں مر جائے تو دنیا اور آخرت میں اس کے تمام اعمال اکارت جائیں گے۔“ ﴿وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ ” اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔“ یعنی ان کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جو قیامت کے روز، اپنی جان، مال اور اپنے اہل و عیال کے بارے میں سخت خسارے میں ہوں گے اور ابدی بدبختی ان کا نصیب بنے گی۔