حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو، (١) اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، (٢) اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو، (٣) جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو (٤) جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو (٥)، اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو، (٦) لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں، (٧) اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، (٨) اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری ہو، (٩) یہ سب بدترین گناہ ہیں، آج کفار دین سے ناامید ہوگئے، خبردار ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بیقرار ہوجائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اور بہت بڑا مہربان ہے (١٠)۔
یہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ ارشاد : جس کا اس نے اس آیت کریمہ ﴿إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ﴾ (المائدہ :1؍5) میں حوالہ دیا ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز حرام ٹھہرائی ہے وہ اپنے بندوں کی حفاظت اور ان کو اس ضرر سے بچانے کے لئے حرام قرار دی ہے جو ان محرمات میں ہوتا ہے۔ کبھی تو اللہ تعالیٰ پر یہ ضرر اپنے بندوں کے سامنے بیان کردیتا ہے اور کبھی (اپنی حکمت کے تحت) اس ضرر کو بیان نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے ” مردار“ کو حرار قرار دیا ہے۔ مردار سے مراد وہ مرا ہوا جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح ہوئے بغیر زندگی سے محروم ہوگیا ہو، پس اس جانور کا گوشت ضرر رساں ہونے کی وجہ سے حرام ہے اور وہ ضرر ہے اس کے اند رگوشت میں خون کا رک جانا، جس کے کھانے سے نقصان پہنچتا ہے اور اکثر جانور، جو کسی بیماری کی وجہ سے جو ان کی ہلاکت کا باعث ہوتی ہے، مر جاتے ہیں، وہ کھانے والے کے لئے نقصان کا باعث ہیں۔ البتہ مری ہوئی ٹڈی اور مچھلی اس حکم سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ ان کا کھانا حلال ہے۔ [یہ استثناء حدیث سے ثابت ہے،(سنن ابن ماجہ حدیث :3218) اسی لئے صحیح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ حدیث کے ساتھ ہی قرآن کی تفہیم اور اس کے احکامات کی تعمیل کی تکمیل ہوتی ہے۔ (ص۔ی) ] ﴿وَالدَّمُ ﴾ ” اور خون‘‘ یعنی بہتا ہوا خون، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس کو اس صفت سے مقید بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ ﴾” اور سور کا گوشت“ اس حرمت میں اس کے تمام اجزا شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ناپاک درندوں میں سے خنزیر کو خاص طور پر منصوص کیا ہے کیونکہ اہل کتاب میں سے نصاریٰ دعویٰ کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے خنزیر کو حلال قرار دیا ہے۔۔۔ یعنی نصاریٰ سے دھوکہ نہ کھانا، کیونکہ یہ خنزیر بھی حرام اور من جملہ خبائث کے ہے۔ ﴿وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ﴾ ” اور وہ جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے“ یعنی اس پر بتوں، اولیاء، کواکب اور دیگر مخلوق کا نام لیا گیا ہو۔ جس طرح ذبیحہ پر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا، اسے پاک کردیتا ہے اسی طرح غیر اللہ کا نام، ذبیحہ کو معنوی طور پر ناپاک کردیتا ہے۔ کیونکہ یہ شرک ہے ﴿وَالْمُنْخَنِقَةُ ﴾ ” اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے۔‘‘ یہ وہ مرا ہوا جانور ہے جس کو ہاتھ سے، رسی سے یا کسی تنگ چیز میں اس کا سرداخل کر کے جہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کردیا گیا ہو ﴿وَالْمَوْقُوذَةُ ﴾ ” اور جو چوٹ لگ کر مر جائے۔“ اس مرے ہوئے جانور کہا جاتا ہے جو لاٹھی، پتھر یا لکڑی وغیرہ کی ضرب سے مرا ہو یا اس پر قصداً یا بغیر قصد کے دیوار وغیرہ گرگئی ہو ﴿ وَالْمُتَرَدِّيَةُ ﴾ ”اور جو گر کر مر جائے۔“ یعنی جو بلند جگہ مثلاً پہاڑ، دیوار یا چھت وغیرہ سے گر کر مر گیا ہو ﴿وَالنَّطِيحَةُ ﴾اس مرے ہوئے جانور کو کہتے ہیں جسے کسی دوسرے جانور نے سینگ مار کر ہلاک کردیا ہو﴿وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ ﴾ جسے بھیڑیئے، شیر، چیتے یا کسی شکاری پرندے وغیرہ نے پھاڑ کھایا ہو۔ اگر درندے کے پھاڑ کھانے سے جانور مر جائے تو یہ حلال نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ﴾ ” مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔“ گلا گھٹ کر مرنے والے، چوٹ لگ کر مرنے والے، بلندی سے گر کر مرنے والے اور درندے کے پھاڑ کھانے سے مرنے والے جانور کی طرف راجع ہے۔ اگر اس جانور میں پوری طرح زندگی موجود ہو اور اسے ذبح کرلیا جائے تو یہ جانور شرعی طور پر مذبوح ہے۔ بنابریں فقہاء کہتے ہیں ” اگر کسی درندے وغیرہ نے کسی جانور کو چیر پھاڑ کر اس کی آنتیں اور دیگر اندرونی اعضا کو باہر نکال کر علیحدہ علیحدہ کردیا ہو یا اس کا حلقوم کاٹ دیا ہو تو اس میں زندگی کا وجود اور عدم وجود مساوی ہیں، کیونکہ اب اس کو ذبح کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔“ بعض فقہاء اس میں صرف زندگی کے وجود کا اعتبار کرتے ہیں۔ اگر اس جانور میں بھی زندگی کا وجود ہو اور اس حالت میں اس کو ذبح کرلیا جائے تو وہ حلال ہے خواہ اس کا اندرونی حصہ بکھیر ہی کیوں نہ دیا گیا ہو۔ آیت کریمہ کا ظاہر اسی پر دلالت کرتا ہے۔ ﴿وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ﴾” اور یہ کہ پانسوں کے ذریعے سے قسمت معلوم کرو۔“ یعنی تمہیں تیروں کے ذریعے سے قسمت کا حال معلوم کرنے سے منع کردیا گیا۔ (استقسام) کے معنی یہ ہیں کہ جو تمہارے مقسوم اور مقدر میں ہے اسے طلب کرنا۔ جاہلیت کے زمانے میں تین تیر ہوتے تھے جن کو اس کام کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جن میں سے ایک پر لکھا ہوتا تھا کہ ” یہ کام کر“ دوسرے پر لکھا ہوتا تھا ” یہ کام نہ کر“ اور تیسرا تیر خالی ہوتا تھا۔ جب کوئی شخص کسی سفر پر روانہ ہونے لگتا یا شادی وغیرہ کرتا تو تینوں تیر کسی ڈوگنی وغیرہ میں رکھ کر گھماتے پھر ان میں سے ایک تیر نکال لیتے اگر اس پر لکھا ہوتا ’’یہ کام کر‘‘ تو وہ یہ کام کرلیتا اور اگر لکھا ہوتا ” یہ کام نہ کر“ تو وہ اس کام میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ اگر وہ تیر نکل آتا جس پر کچھ بھی نہ لکھا ہوتا تو وہ اس عمل کا اعادہ کرتا یہاں تک کہ لکھا ہوا تیر نکل آتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اس عمل کو اس صورت میں یا اس سے مشابہ صورت میں حرام قرار دے دیا اور اس کے عوض ان کو تمام امور میں اپنے رب سے استخارہ کرنے کا حکم دیا (جیسا کہ حدیث نبوی سے استخارے کی تاکید ہے۔ جامع الترمذی، حدیث :480) ﴿ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ﴾ ” یہ سب گناہ (کے کام) ہیں۔“ یہ ان تمام محرمات کی طرف اشارہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لئے حرام قرار دیا ہے۔ یہ تمام محرمات فسق ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل کر شیطان کی اطاعت میں داخل ہونا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر احسان جتلاتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ﴾ وہ دن جس کی طرف آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے وہ عرفہ کا دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو مکمل فرمایا : اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور اہل شرک پوری طرح بے یار و مددگار ہوگئے حالانکہ وہ اس سے پہلے اہل ایمان کو ان کے دین سے پھیرنے کی بہت خواہش رکھتے تھے۔ جب انہوں نے اسلام کا غلبہ، اس کی فتح اور بالا دستی دیکھی تو اہل ایمان کو دین سے پھیرنے سے پوری طرح مایوس ہوگئے اور اب ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ وہ اہل ایمان سے خوف کھانے لگے۔ بنا بریں، اس سال یعنی 10 ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کیا تو اس حج میں کسی مشرک نے حج نہیں کیا اور نہ کسی نے عریاں ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ اس لئے فرمایا : ﴿فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ﴾ ” تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔“ یعنی مشرکین سے نہ ڈرو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس نے مشرکین کے مقابلے میں تمہاری مدد فرمائی اور ان کو تنہا چھوڑ دیا اور ان کے مکر و فریب اور ان کی سازشیں ان کے سینوں ہی میں لوٹا دیں۔ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ﴾ ” آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا‘‘ یعنی اپنی نصرت کا اتمام کر کے اور ظاہری و باطنی طور پر اور اصول و فروع میں شریعت کی تکمیل فرما کر۔ اسی لئے احکام دین یعنی اس کے تمام اصول و فروع میں کتاب و سنت کافی ہیں۔ اگر تکلیف کا شکار کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لوگ عقائد اور احکام دین کی معرفت کے لئے کتاب و سنت کے علم کے علاوہ دیگر علوم مثلاً علم کلام وغیرہ کے محتاج ہیں، تو وہ جاہل اور اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے گویا وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ دین کی تکمیل اس کے اقوال اور ان نظریات کے ذریعے سے ہوئی ہے جس کی طرف وہ دعوت دیتا ہے اور یہ سب سے بڑا ظلم اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہل قرار دینا ہے۔ ﴿وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي ﴾ ” اور میں نے تم پر اپنی (ظاہری اور باطنی) نعمت پوری کردی“ ﴿وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾” اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا۔“ یعنی میں نے اسلام کو تمہارے لئے دین کے طور پر اور تمہیں اسلام کے لئے چن لیا ہے۔ اب اپنے رب کی شکر گزاری کے لئے اس دین کو قائم کرو اور اس ہستی کی حمد و ستائش کرو جس نے تمہیں بہترین، عالی شان اور کامل ترین دین سے نواز کر تم پر احسان فرمایا۔ ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ ﴾” پس جو شخص ناچار ہوجائے۔“ یعنی جسے ضرورت ان محرمات میں سے کچھ کھانے پر مجبور کر دے جن کا ذکر﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ ﴾کے تحت گزر چکا ہے ﴿فِي مَخْمَصَةٍ﴾ ” بھوک کی وجہ سے“ یعنی اگر وہ سخت بھوکا ہو ﴿غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ﴾ ” گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔“ بایں طور کہ وہ ان محرمات کو اس وقت تک نہ کھائے جب تک کہ وہ اضطراری حالت میں نہ ہو اور ضرورت سے بڑھ کر نہ کھائے ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے کہ اس نے بندے کے لئے اس اضطراری حال میں محرمات کو کھانا جائز قرار دے دیا اور اس کی نیت کے مطابق اور دین میں کوئی نقص لاحق کئے بغیر اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرمایا۔