سورة العصر - آیت 1

َالْعَصْرِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

زمانے کی قسم (١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمانے کی قسم کھائی ہے جو گردش شب وروز کا نام ہے جو بندوں کے اعمال اور ان کے افعال کا محل ہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔ خاسرنفع اٹھانے والے کی ضد ہے ۔ خسارے کے متعدد اور متفاوت مراتب ہیں۔ کبھی خسارہ مطلق ہوتا ہے، جیسے اس شخص کا حال، جس نے دنیا وآخرت میں خسارہ اٹھایا ، جنت سے محروم ہوا اور جہنم کا مستحق ہوا۔ کبھی خسارہ اٹھانے والا کسی ایک پہلو سے خسارے میں رہتا ہے، کسی دوسرے پہلو سے خسارے میں نہیں رہتا ، بنابریں اللہ تعالیٰ نے خسارے کو ہر انسان کے لیے عام قرار دیا ہے سوائے اس شخص کے جو ان چار صفات سے متصف ہے۔ ١۔ ان امور پر ایمان لانا جن پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ایمان علم کے بغیر نہیں ہوتا اس لیے علم ایمان ہی کی فرع ہے، علم کے بغیر اس ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ٢۔ عمل صالح: یہ تمام ظاہری اور باطنی بھلائی کے افعال کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق واجبہ ومستحبہ سے متعلق ہیں۔ ٣۔ ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرنا، حق جو ایمان اور عمل صالح کا نام ہے، یعنی اہل ایمان ایک دوسرے کو ان امور کی وصیت کرتے ہیں، ان پر ایک دوسرے کو آمادہ کرتے اور ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی، اس کی نافرمانی سے باز رہنے کی اور اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ تقدیر پر صبر کرنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرنا۔ پہلے دو امور کے ذریعے سے بندہ مومن اپنے آپ کو تکمیل کرتا ہے اور آخری دو امور کے ذریعے سے وہ دوسروں کی تکمیل کرتا ہے ۔ ان چاروں امور کی تکمیل سے بندہ خسارے سے محفوظ رہتا ہے اور بہت بڑا نفع حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔