إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
اسے اللہ تعالیٰ قطعًا نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔
وہ گناہ جو شرک سے کمتر ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اپنی رحمت اور حکمت سے ان گناہوں کو بخش دے گا اور اگر چاہے گا تو اپنے عدل و حکمت سے ان کو عذاب دے گا۔ اس آیت کریمہ سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ اجماع امت حجت ہے نیز یہ کہ وہ خطا سے محفوظ ہے۔ اس استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کے راستے کی مخالفت کرنے پر جہنم اور خذ لان کی وعید سنائی ہے اور مومنین کا راستہ مفرد اور مضاف ہے جو ان عقائد و اعمال پر مشتمل ہے جن پر تمام اہل ایمان عمل پیرا ہیں۔ جب تمام اہل ایمان کسی چیز کے وجوب، استحباب، تحریم، کراہت یا جواز پر متفق ہیں تو یہی ان کا راستہ ہے اور جو کوئی اہل ایمان کے کسی چیز پر انعقاد اجماع کے بعد ان کی مخالفت کرتا ہے تو وہ اہل ایمان کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے پر گامزن ہے۔ اجماع امت کے حجت ہونے پر یہ آیت کریمہ بھی دلالت کرتی ہے﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّـهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ﴾(آل عمران :3؍ 110) ” تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لئے پیدا کی گئی ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔“ اس آیت کریمہ میں استدلال کا پہلو یہ ہے کہ اس امت کے اہل ایمان صرف نیکی ہی کا حکم دیتے ہیں، لہٰذا جب وہ کسی چیز کے وجوب یا استحباب پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ گویا وہ چیز ہے جس کا انہیں حکم دیا گیا۔ پس آیت کریمہ کی نص سے متعین ہوگیا کہ وہ معاملہ معروف ہی ہوگا اور معروف کے علاوہ جو کچھ ہے وہ منکر ہے۔ اسی طرح جب وہ کسی چیز سے منع کرنے پر متفق ہوجاتے ہیں تو وہ انہی باتوں میں سے ہے جن سے انہیں روکا گیا ہے، پس وہ یقیناً منکر ہے۔ اسی کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ﴾(البقرۃ:2؍143) ” اور اسی طرح ہم نے تمہیں ” امت وسط“ بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے اس امت کو معتدل اور بہترین امت بنایا ہے تاکہ وہ ہر چیز کے بارے میں لوگوں پر گواہ بنیں۔ جب وہ کسی حکم کے بارے میں یہ گواہی دیں کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے یا اس نے اس کو مباح قرار دیا ہے، تو ان کی شہادت معتبر اور معصوم ہے کیونکہ وہ جس چیز کی شہادت دے رہے تھے اس کا علم رکھتے ہیں اور اپنی شہادت میں عادل ہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو وہ اپنی شہادت میں عادل اور اس کا علم رکھنے والے نہ ہوتے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھی اس کی نظیر ہے۔ ﴿ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ﴾ (النساء :4؍59) ’’اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہوجائے تو معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔ “ آیت کریمہ سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جس معاملہ میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں بلکہ اتفاق ہے، اسے وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانے پر مامور نہیں ہیں۔ ایسا معاملہ قرآن اور سنت کے موافق ہی ہوگا، مخالف نہیں ہوسکتا۔ ان دلائل سے قطعی طور پر یہ مستفاد ہوتا ہے کہ اس امت کا اجماع حجت ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی گمراہی کی برائی بیان کرتے ہوئے فرمایا :