وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہوجاؤ، پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں ان میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ (١) پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو انہیں پکڑو (٢) اور قتل کرو جہاں بھی ہاتھ لگ جائیں (٣) خبردار ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ سمجھ بیٹھنا۔
﴿فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ ﴾” تو تم ان کو دوست نہ بناؤ۔“ یہ ممانعت ان کے ساتھ عدم محبت کو لازم ٹھہراتی ہے، کیونکہ موالات اور دوستی محبت ہی کی ایک شاخ ہے، نیز یہ ممانعت ان کے ساتھ بغض اور عداوت کو لازم ٹھہراتی ہے کیونکہ کسی چیز سے ممانعت درحقیقت اس کی ضد کا حکم ہے اور اس حکم کی مدت ان کی ہجرت تک ہے۔ اگر وہ جرات کر کے آجاتے ہیں تو ان پر وہی احکام جاری ہوں گے جو دیگر مسلمانوں پر جاری ہوتے ہیں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر اس شخص پر اسلام کے احکام جاری فرماتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہجرت کر کے آپ کی خدمت میں پہنچ گیا تھا۔ خواہ وہ حقیقی مومن تھا یا محض ایمان کا اظہار کرتا تھا۔ اگر وہ ہجرت نہیں کرتے اور اس سے روگردانی کرتے ہیں ﴿ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ﴾” تو ان کو پکڑ لو اور جہاں پاؤ ان کو قتل کر دو۔“ یعنی جب بھی اور جس جگہ تم ان کو پاؤ ان کو قتل کردو۔ یہ آیت کریمہ ان جملہ دلائل میں شامل ہے جو حرام مہینوں میں قتال کی حرمت کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتے ہیں، جیسا کہ یہ جمہور اہل علم کا قول ہے۔ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ یہ تمام نصوص مطلق ہیں، حرام مہینوں میں قتال کی تحریم کی تخصیص پر محمول ہوں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان منافقین میں سے تین گروہوں کو قتال سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ ان میں سے دو گروہوں کو ترک کرنے کا حتمی حکم دیا ہے۔ ان میں پہلا گروہ وہ ہے جو کسی ایسی قوم کے ساتھ مل جاتا ہے جن کے ساتھ مسلمانوں کا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے۔ پس ان منافقین کو اس قوم میں شامل قرار دیا جائے گا اور جان و مال کے بارے میں ان کا بھی وہی حکم ہوگا جو اس قوم کا ہوگا۔