سورة النسآء - آیت 75

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا (١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے اس کی راہ میں جہاد کی ترغیب ہے نیز یہ کہ جہاد ان پر فرض کردیا گیا ہے اور ترک جہاد ان کے لیے بہت بڑی ملامت کا باعث ہوگا۔ ﴿وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾ ” تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں لڑتے نہیں؟“ اور حال یہ ہے کہ مستضعفین مرد، عورتیں اور بچے جن کے پاس کوئی چارہ ہے نہ ان کے پاس آزادی حاصل کرنے کا کوئی راستہ اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں دشمنوں کے ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں کہ وہ ان کو اس بستی سے نکالے جس کے باشندے کفر و شرک کے ارتکاب کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں اہل ایمان کو اذیتیں دے کر، ان کو اللہ کے راستے سے روک کر اور انہیں دعوت دین اور ہجرت سے منع کر کے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کا کوئی ولی اور مددگار مقرر فرما دے جو انہیں اس ظالم بستی سے نکال لے جائے۔ تب اس صورت میں جہاد تمہارے بچوں، عورتوں اور تمہاری عزت و ناموس کے دفاع کے زمرے میں شمار ہوگا۔ کیونکہ جہاد تو وہ ہے جس میں کفار کے مقابلے کی خواہش ہو۔ جہاد کی اگرچہ بہت بڑی فضیلت ہے اور جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اس سے بڑھ کر ملامت ہے۔ تاہم وہ جہاد جس کے ذریعے سے اہل ایمان مستضعفین کو کفار سے نجات دلائی جاتی ہے اجر و ثواب کے اعتبار سے سب سے عظیم اور فائدے کے لحاظ سے سب سے بڑا جہاد ہے کیونکہ یہ دشمنوں سے دفاع کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔