سورة النسآء - آیت 74

فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۚ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس جو لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ چکے ہیں (١) انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا چاہیے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پالے یا غالب آ جائے، یقیناً ہم اسے بہت بڑا ثواب عنایت کرتے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

فرمایا : ﴿فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۚ ﴾ ” پس چاہئے کہ وہ لوگ اللہ کے راستے میں لڑیں جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچتے ہیں“ یہ اس آیت کی تفسیر کے بارے میں چند اقوال میں سے ایک قول ہے اور سب سے زیادہ صحیح ہے۔ ایک اور قول کے مطابق اس کا معنی یہ ہے کہ ان مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا چاہئے جو اپنے ایمان میں کامل اور صدق کے حامل ہیں۔ ﴿الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ﴾ یعنی آخرت میں رغبت رکھتے ہیں دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ دیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ کے خطاب کا رخ ہے کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے تیار کر کے عادی بنا لیا ہے، اس لیے کہ یہ لوگ ایمان کامل کے حامل ہیں جو جہاد کا تقاضا کرتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو جہاد کے لیے نہیں اٹھتے تو یہ لوگ جہاد کے لیے نکلیں یا گھر بیٹھے رہیں اللہ تعالیٰ کو ان کی پروا نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴾(بنی اسرائیل :17؍107) ” کہہ دیجیے کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے جب وہ ان کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں“ آیات کے آخرتک۔ نیز اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔﴿فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَـٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ  ﴾(الانعام :6؍89 ) اگر یہ کفار اس کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے اس پر ایمان لانے کے لیے کچھ ایسے لوگوں کو مقرر کردیا ہے جو اس کا انکار کرنے والے نہیں۔ “ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ لڑائی کرنے والے مجاہد کو کفار کے خلاف لڑنا چاہئے جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خرید لی ہے۔ تب اس صورت میں آیت کریمہ میں موجود لفظ (اَلَّذِیْنَ) مفعول ہونے کی بنا پر نصب کے مقام پر ہے۔ فرمایا :﴿وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾ ”اور جو لڑتا ہے اللہ کے راستے میں“ یعنی یہ جہاد ہو جس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور بندہ اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور اس کی رضا کا قصد رکھتا ہو ﴿ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا  ﴾ ”پس وہ قتل کردیا جائے یا غالب آجائے، ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے“ یعنی یہ اجر ان کے دین و ایمان میں اضافہ، مال غنیمت اور ثنائے حسن کی صورت میں عطا ہوگا۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت میں وہ ثواب تیار کر رکھا ہے جسے کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل میں اس کا کبھی گزر ہوا۔