وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَن لَّيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُن مَّعَهُمْ شَهِيدًا
اور یقیناً تم میں بعض وہ بھی ہیں جو پس و پیش کرتے ہیں (١) پھر اگر تمہیں کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کمزور ایمان مسلمانوں کے بارے میں آگاہ فرمایا جو کاہلی کی بنا پر جہاد سے جی چراتے ہیں۔ ﴿وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَن لَّيُبَطِّئَنَّ ﴾ ” اور تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے کہ عمداً دیر لگاتا ہے۔“ یعنی اے اہل ایمان ! تم میں سے بعض لوگ کمزوری، سستی اور بزدلی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نہیں نکلتے۔ یہی تفسیر صحیح ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس کے معنی ہیں، کہ وہ دوسروں کو جہاد کے لیے نکلنے سے روکتے ہیں۔ ایسا کرنے والے منافق تھے لیکن پہلے معنی دو لحاظ سے زیادہ صحیح ہیں۔ اول : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿مِنكُمْ ﴾” تم میں سے“ اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ خطاب اہل ایمان سے ہے۔