وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا
اگر ہم ان پر یہ فرض کردیتے ہیں کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو! یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ! تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ حکم بجا لاتے اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور زیادہ مضبوطی والا ہو (١)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر شاق گزرنے والے احکام فرض کئے ہوتے مثلاً، اپنے آپ کو قتل کرنا اور گھروں سے نکلنا وغیرہ تو اس پر بہت کم لوگ عمل کرسکتے، پس انہیں اپنے رب کی حمد و ثنا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسے آسان احکام نافذ کئے ہیں جن پر عمل کرنا ہر ایک کے لیے آسان ہے اور ان میں کسی کے لیے مشقت نہیں۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ مومن کو چاہئے کہ اسے جو امور گراں گزرتے ہیں، وہ ان کی ضد کو ملاحظہ کرے تاکہ اس پر عبادات آسان ہوجائیں، تاکہ اپنے رب کے لیے اس کی حمد و ثنا اور شکر میں اضافہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر انہوں نے اس چیز پر عمل کیا ہوتا جس کی انہیں نصیحت کی گئی ہے، یعنی تمام اوقات کے مطابق ان کے لیے جو اعمال مقرر کئے گئے ہیں، ان کے لیے اپنی ہمتیں صرف کرتے ان کے انتظام اور ان کی تکمیل کے لیے ان کے نفوس پوری کوشش کرتے اور جو چیز انہیں حاصل نہ ہوسکتی اس کے لیے کوشش نہ کرتے اور اس کے درپے نہ ہوتے اور بندے کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے حال پر غور کرے جس کو قائم کرنا لازم ہے اس کی تکمیل میں جدوجہد کرے۔ پھر بتدریج تھوڑا تھوڑا آگے بڑھتا رہے یہاں تک کہ جو دینی اور دنیاوی علم و عمل اس کے لیے مقدر کیا گیا ہے اسے حاصل کرلے۔ یہ اس شخص کے برعکس ہے جو اس معاملے پر ہی نظریں جمائے رکھتا ہے جہاں تک وہ نہ پہنچ سکا اور نہ اس کو اس کا حکم دیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ تفریق ہمت، سستی اور عدم نشاط کی بنا پر اس منزل تک نہیں پہنچ سکا۔ پھر ان کو جو نصیحت کی گئی ہے اس پر عمل کرنے سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں ان کے چار مراتب ہیں۔ اول : بھلائی کا حصول۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ذکر کیا گیا ہے ﴿لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ﴾” البتہ ان کے لیے بہتر ہوتا“ یعنی ان کا شمار نیک لوگوں میں ہوتا جو ان افعال خیر سے متصف ہیں جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا اور ان سے شریر لوگوں کی صفات زائل ہوجاتیں کیونکہ کسی چیز کے ثابت ہونے سے اس کی ضد کی نفی لازم آتی ہے۔ ثانی : ثابت قدمی اور اس میں اضافے کا حصول۔ کیونکہ اہل ایمان کے ایمان کو قائم رکھنے کے سبب، جسے قائم رکھنے کی انہیں نصیحت کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ انہیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی میں، اوامرونواہی میں فتنوں کے وارد ہونے اور مصائب کے نازل ہونے کے وقت انہیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے، تب انہیں ثبات حاصل ہوتا ہے اوامر پر عمل کرنے اور ان نواہی سے اجتناب کی توفیق عطا ہوتی ہے نفس جن کے فعل کا تقاضا کرتا ہے اور ان مصائب کے نازل ہونے پر ثابت قدمی اور استقامت عطا ہوتی ہے جن کو بندہ ناپسند کرتا ہے۔ بندے کو صبر و رضا اور شکر کی توفیق کے ذریعے سے ثابت قدمی عطا ہوتی ہے۔ پس بندے پر اس کی ثابت قدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نازل ہوتی ہے اور اسے نزع کے وقت اور قبر میں ثابت قدمی سے نواز دیا جاتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے اوامر کو قائم رکھنے والا بندہ مومن شرعی احکام کا عادی بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان احکام سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان احکام کا مشتاق بن جاتا ہے اور یہ الفت اور اشتیاق نیکیوں پر ثبات کے لیے اس کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔