فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے جھگڑوں میں اس کے رسول کو حکم تسلیم نہ کریں۔ یعنی ہر اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اور فیصل تسلیم کریں جس میں اجماعی مسائل کے برعکس ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف واقع ہو۔ کیونکہ اجماعی مسائل کتاب و سنت کی دلیل پر مبنی ہوتے ہیں۔ پھر اس تحکیم کو تسلیم کرنا ہی کافی قرار نہیں دیا بلکہ یہ شرط بھی عائد کی کہ آپ کو حکم تسلیم کرنا محض اغماض کے پہلو سے نہ ہو بلکہ ان کے دلوں میں کسی قسم کی تنگی اور حرج نہ ہو اور اس تحکیم کو ہی کافی قرار نہیں دیا جب تک کہ وہ شرح صدر، اطمینان نفس، ظاہری اور باطنی اطاعت کے ساتھ آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرلیں۔ پس آپ کو حکم تسلیم کرنا اسلام کے مقام میں ہے۔ اس تحکیم میں تنگی محسوس نہ کرنا، ایمان کے مقام میں ہے اور آپ کے فیصلے پر تسلیم و رضا احسان کے مقام میں ہے۔ جس کسی نے ان مراتب کو مکمل کرلیا اس نے دین کے تمام مراتب کی تکمیل کرلی اور جس نے اس کا التزام کئے بغیر اس تحکیم کو ترک کردیا وہ کافر ہے اور جس نے التزام کرنے کے باوجود اس تحکیم کو ترک کردیا وہ دیگر گناہگاروں کی مانند ہے۔