وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا
میں نے جب کبھی انہیں تیری بخشش کے لئے بلایا (١) انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں (٢) اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے (٣) اور پھر بڑا تکبر کیا، (٤)
﴿وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ﴾” اور میں نے جب بھی ان کو پکارا تاکہ تو ان کو بخش دے۔“ یعنی اس وجہ سے پکارا کہ وہ اس دعوت کو قبول کریں۔ جب وہ دعوت کو قبول کرلیں گے تو ان کو بخش دیا جائے گا اور اس میں محض ان کی مصلحت ہے مگر وہ اپنے باطل پر مصر اور حق سے دور بھاگتے رہے ﴿جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ﴾ ” انہوں نے کانوں میں انگلیاں دے لیں۔“ اس ڈر سے کہ کہیں وہ باتیں ان کے کان میں نہ پڑجائیں جو ان سے ، ان کا نبی نوح (علیہ السلام )کہتا ہے۔ ﴿ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ﴾ یعنی حق سے بعد اور بغض کی بنا پر، اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانپ کر پردہ کرلیا ﴿ وَأَصَرُّوا﴾ اور انہوں نے اپنے کفر اور شر پر اصرار کیا ﴿وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا﴾اورحق کے مقابلے میں تکبر کیا، پس ان کا شر بڑھ گیا اور بھلائی ان سے دور ہوگئی۔﴿ ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ﴾” پھر میں ان کو کھلے طور پر بلاتا رہا۔“ یعنی میں ان سب کو سنا کر دعوت دیتا رہا۔