وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ
اور (مثال بیان فرمائی) مریم بنت عمران کی (١) جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی پھر ہم نے اپنی طرف سے اس میں جان پھونک دی اور (مریم) اس نے اپنے رب کی باتوں (٢) اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور عبادت گزاروں میں تھی۔ (٣)
﴿وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا﴾ ”اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی۔“ یعنی انہوں نے اپنی کامل دیانت، عفت اور پاکیزگی کی بنا پر ہر فحش کام سے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی۔ ﴿فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا﴾ ”پس ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔“ جبرائیل علیہ السلام نے اس کے کرتے کے گریبان میں پھونک ماری اور ان کی یہ پھونک حضرت مریم تک پہنچی ،چنانچہ اس طرح حضرت مریم علیہا السلام سے رسول کریم اور سید عظیم حضڑت عیسیٰ علیہ السلام متولد ہوئے ﴿وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَکُتُبِہٖ﴾ ”اور انہوں نے اپنے رب کے کلام اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی۔“ یہ حضرت مریم علیہ السلام کو علم اور معرفت سے موصوف کیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلمات کی تصدیق اس کے کلمات دینی اور قدری کی تصدیق کو شامل ہے ،اس کی کتابوں کی تصدیق ان امور کا تقاضا کرتی ہے جن کے ذریعے سے تصدیق حاصل ہوتی ہے اور یہ علم وعمل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی، بنابریں فرمایا :﴿وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ﴾ ”اور وہ فرماں برداروں میں سے تھیں۔“ یعنی وہ خشیت اور خشوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مداومت کرنے والوں میں سے تھیں ،یہ ان کے کمال عمل کا وصف ہے کیونکہ وہ صدیقہ تھیں اور صدیقیت کمال علم وعمل کا نام ہے۔