سورة التحريم - آیت 5

عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اگر وہ (پیغمبر) تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد انہیں ان کا رب! تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا (١) جو اسلام والیاں توبہ کرنے والیاں، عبادت بجا لانے والیاں روزے رکھنے والیاں ہوں گی بیوہ اور کنواریاں۔ (٢)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

ان آیات کریمہ میں دونوں ازواج مطہرات کے لیے تنبیہ ہے جو مخفی نہیں ہے ،پھر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو ایک ایسی حالت سے ڈرایا ہے جو عورتوں پر بے حد شاق گزرتی ہے اور وہ ہے طلاق، جو ان کے لیے سب سے گراں چیز ہوتی ہے، اس لیے فرمایا :﴿عَسٰی رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ﴾ یعنی تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں برتری ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرو کیونکہ اگروہ تمہیں طلاق دے دیں تو معاملہ ان پر تنگ نہیں ہوگا اور نہ وہ تمہارے محتاج ہی ہوں گے کیونکہ آپ عنقریب دوسری بیویاں پائیں گے اور اللہ تعالیٰ (تمہارے بدلے میں) آپ کو ایسی بیویاں عطا کردے گاجو دین اور حسن وجمال میں تم سے بہتر ہوں گی۔ یہ ایسی تعلیق کے باب میں سے ہے جس کا وجود نہیں اور نہ اس کا وجود لازم ہے کیونکہ آپ نے ان ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی اور اگر آپ طلاق دے دیتے تو وہی ہوتا جو ان ازواج مطہرات کے بارے میں ذکر فرمایا ہے ،وہ اسلام جو کہ ظاہری شریعت کو قائم کرنے کا نام ہے اور ایمان جو باطنی شریعت عقائد اور اعمال قلوب کو کرنے کا نام ہے، دونوں کو جامع ہوتیں۔ (قنوت )سے مراد دائمی اطاعت اور اطاعت پر استمرار ہے۔ ﴿تٰیِٕبٰتٍ﴾ وہ ان امور سے توبہ کرنے والی ہوں گی جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے امور کو قائم کرنے سے موصوف فرمایا جن کو وہ پسند کرتا ہے اور ان کو ایسے امور سے اجتناب کرنے سے موصوف فرمایا جو اسے ناپسند ہیں ﴿ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا﴾ یعنی ان میں بعض ثیبہ (بیوہ) ہوں گی اور بعض کنواری تاکہ آپ کو اپنی پسند کے مطابق تنوع حاصل ہو۔ چنانچہ جب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے یہ تخویف اور تادیب سنی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا جوئی کے لیے جلدی سے آگے بڑھیں، لہٰذا یہ مذکورہ اوصاف ان پر منطبق ہوئے اور وہ مومن عورتوں میں سب سے افضل قرار پائیں ۔اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے لیے مکمل احوال اور اعلی امور کا انتخاب کرتا ہے ۔پس جب اللہ تعالیٰ نے مذکورہ خواتین کو اپنے رسول کے حرم کے لیے باقی رکھنا پسند کیا تو اس سے ثابت ہوا کہ وہ تمام عورتوں سے بہتر اور کامل ہیں۔