وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہوگئی ہوں، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو (١) اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے (٢) اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا۔
چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ مامور بہ طلاق عورتوں کی عدت کے لیے ہے، اس لیے عدت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :﴿ وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ ﴾ وہ عورتیں جنہیں حیض آتا تھا پھر بڑھاپے یاکسی اور وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا اور دوبارہ حیض آنے کی امید نہ رہی تو ان کی عدت ﴿ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ ﴾ ”تین مہینے ہے۔“ ہر حیض کے مقابلے میں ایک مہینہ مقرر کیا ہے۔ ﴿ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ﴾ یعنی چھوٹی لڑکیاں جن کو ابھی حیض نہیں آیا یا وہ بالغ عورتیں جن کو بالکل حیض نہیں آیا ،ان عورتوں کی مانند ہیں جو حیض آنے سے مایوس ہوچکی ہیں ،ان کی عدت بھی تین ماہ ہے ۔رہی وہ عورتیں جن کو حیض آتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی عدت اپنے اس ارشاد میں بیان فرمائی ہے: ﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ﴾( البقرۃ :2؍228)”اور مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔“ ﴿وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ﴾”اور حمل والی عورتوں کی مقررہ مدت“یعنی ان کی عدت ﴿اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ﴾ ”وضع حمل تک ہے۔“ یعنی ان کے بطن میں جو ایک یا متعدد بچے ہیں، ان کو وہ جنم دے دیں ،اس صورت میں مہینوں وغیرہ کا اعتبار نہ ہوگا۔ ﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا﴾ یعنی جو تقوی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تمام امور کو آسان اور ہر مشکل کو سہل کردیتا ہے۔