يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ (١) تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو (٢) اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو (٣) اگر تم میری راہ میں جہاد کے لئے اور میری رضامندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو (٤) ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقیناً راہ راست سے بہک جائے گا (٥)۔
بہت سے مفسرین رحمہم اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ان آیات کریمہ کا سبب نزول حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ فتح مکہ کیا تو حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے مکہ کے مشرکین کو خط لکھا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی اطلاع دے دی۔ یہ اطلاع شک اور نفاق کی بنا پر نہ تھی بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ مشرکین پر ایک احسان کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ خط ایک عورت کے ذریعے سے روانہ کردیا ۔اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام معاملے سے آگاہ کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے مکہ پہنچنے سے پہلے پہلے اس کی طرف آدمیوں کو بھیجا اور اس سے وہ خط برآمد کرالیا ۔آپ نے حاطب رضی اللہ عنہ پر ناراضی کا اظہار فرمایا تو حاطب رضی اللہ عنہ نے ایسا عذر پیش کیا جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔ ان آیات کریمہ میں کفارو مشرکین وغیرہ سے موالات اور مودت رکھنے کی سخت ممانعت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ موالات ومودت ایمان اور ملت ابراہیم علیہ السلام کے منافی اور عقل کے خلاف ہے جو ایسے دشمن سے پوری طرح سے بچنے کو واجب قرار دیتی ہے جو اپنی دشمنی میں جہد وکوشش میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا اور اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ ”اے ایمان والو!“ اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو ،جو ایمان لائے اس کے ساتھ موالات ومودت رکھو، جو ایمان کے ساتھ عداوت رکھے تم اس کے ساتھ عداوت رکھو ،کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن اور اہل ایمان کا دشمن ہے، لہٰذا ﴿لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ ﴾ نہ بناؤ تم اللہ تعالیٰ کے دشمن کو﴿ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ ﴾ ”اور اپنے دشمن کو دوست ،تم اپنی دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ “یعنی تم ان کی محبت ومودت اور اس کے اسباب کے حصول کی کوشش میں جلدی مچاتے ہو۔ جب مودت حاصل ہوجاتی ہے تو نصرت وموالات اس کے پیچھے آتی ہیں ،تب بندہ ایمان کے دائرے سے نکل کر اہل کفران کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے۔ کافر کو دوست بنانے والا یہ شخص مروت سے بھی محروم ہے، وہ اپنے سب سے بڑے دشمن سے کیوں کر موالات رکھتا ہے جو اس کے بارے میں صرف برائی کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنے رب کی کیوں کر مخالفت کرتا ہے جو اس کے بارے میں صرف بھلائی چاہتا ہے، اسے بھلائی کا حکم دیتا ہے اور بھلائی کی ترغیب دیتا ہے؟ مومن کو کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کی طرف یہ چیز بھی دعوت دیتی ہے کہ انہوں نے اس حق کو ماننے سے انکار کردیا جو مومنوں کے پاس آیا تھا ۔اس مخالفت اور دشمنی سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں ،انہوں نے تمہارے اصل دین کا انکار کیا ہے، ان کا گمان ہے کہ تم گمراہ ہو، ہدایت پر نہیں ہو۔ اور ان کا حال یہ ہے کہ انہوں نے حق کا انکار کیا جس میں کوئی شک وشبہ نہیں اور جو کوئی حق کو ٹھکراتا ہے تو یہ امر محال ہے کہ اس کے پاس کوئی دلیل یا حجت پائی جائے جو اس کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہو ،بلکہ حق کا مجرد علم ہی اس شخص کے قول کے بطلان اور فساد پر دلالت کرتا ہے جو حق کو ٹھکراتا ہے۔ یہ ان کی انتہا کو پہنچتی ہوئی عداوت ہے کہ ﴿یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ﴾ اے مومنو! وہ رسول کو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالتے ہیں اور تمہیں جلاوطن کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اس بارے میں تمہارا اس کے سوا کوئی گناہ نہیں کہ ﴿اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ ﴾ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لائے ہو جس کی عبودیت کو قائم کرنا تمام مخلوق پر فرض ہے کیونکہ اسی نے ان کی پرورش کی اور ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا۔ جب انہوں نے اس کام سے منہ موڑ لیا، جو سب سے بڑا فرض تھا۔ اور تم نے اس کو قائم کیا ،تو وہ تمہارے ساتھ دشمن پر اتر آئے اور اس بنا پر انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا۔ تب کون سا دین، کون سی مروت اور کون سی عقل بندے کے پاس رہ جاتی ہے اگر پھر بھی وہ کفار کے ساتھ موالات رکھے جن کا ہر زمان ومکان میں یہی وصف رہا ہے؟ ان کو خوف یا کسی طاقت ور مانع کے سوا کسی چیز نے ایسا کرنے سے نہیں روکا۔ ﴿اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِیْ ﴾ یعنی اگر تمہارا گھروں سے نکلنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے اور اس کی رضامندی کی طلب کے لیے جہاد فی سبیل اللہ ہے ،تو اس کے تقاضے کے مطابق اولیاء اللہ سے موالات اور اس کے دشمنوں سے عداوت رکھو، یہ اس کے راستے میں سب سے بڑا جہاد اور سب سے بڑا وسیلہ ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے والے اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے اس کی رضا کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ﴿ تُسِرُّوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ ﴾ یعنی تم کفار کے ساتھ مودت کو کیسے چھپاتے ہو ،حالانکہ تمہیں علم ہے کہ تم جو کچھ چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ تمہارا کفار کے ساتھ مودت وموالات رکھنا اگرچہ اہل ایمان پر چھپا ہوا ہے مگر اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ وہ عنقریب اپنے بندوں کو ان کے بارے میں اپنے علم کے مطابق نیکی اور بدی کی جزا وسزا دے گا۔ ﴿وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ﴾ اور جو کوئی کفار سے موالات رکھے اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے منع کیا ہے۔ ﴿ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیْلِ﴾ ”تو وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا ۔“کیونکہ وہ ایسے راستے پر چل پڑا جو شریعت، عقل اور مروت انسانی کے خلاف ہے۔