سورة الحشر - آیت 18

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو (١) اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے (٢) اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے (٣)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو ان امور کا حکم دیتا ہے، جن کا ایمان موجب ہے اور کھلے چھپے تمام احوال میں التزام تقوٰی کا تقاضا کرتا ہے ۔نیز یہ کہ وہ ان اوامر وحدود کی رعایت رکھیں جن کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہے اور اس بات پر غور کریں کہ ان کے فرائض کیا ہیں اور ان کے لیے عنایات کیا ہیں اور انہوں نے کون کون سے اعمال کیے جوا نہیں قیامت کے روز نفع ونقصان دیں گے؟ کیونکہ جب وہ آخرت کو اپنا نصب العین اور اپنے دلوں کا قبلہ بنا لیں گے اور آخرت میں قیام کا اہتمام کریں گے تو وہ کثرت اعمال کی کوشش کریں گے اور جو اس نصب العین تک پہنچاتے ہیں اور ایسے قواطع طریق سے اس کو پاک کرتے ہیں ،جو انہیں سیر وسلوک سے روکتے ہیں یا انہیں باز رکھتے ہیں یا ان کا رخ بدل دیتے ہیں ۔جب انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے، ان کے اعمال اس سے چھپے ہوئے نہیں ہیں، ان کے اعمال اس کے ہاں ضائع ہوتے ہیں نہ بیکار جاتے ہیں تو یہ چیز ان پر جدوجہد کو واجب کرتی ہے۔ یہ آیت کریمہ بندے کے لیے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کی بنیاد پر ہے۔ وہ یہ کہ بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کا معائنہ کرے۔ اگر وہ اپنے اندر کوئی لغزش دیکھے تو اس کو ختم کرکے خالص توبہ کے ذریعے سے ان امور سے منہ موڑکر اس کا تدارک کرے جو اس لغزش کا باعث ہیں ۔اگر وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے بارے میں اپنے آپ میں کوئی کوتاہی دیکھے تو اپنی پوری کوشش صرف کردے، اس کی تکمیل واتمام اور اس کی اچھی طرح تعمیل کے لیے اپنے رب سے مدد مانگے ،اپنی ذات پر اللہ تعالیٰ کی عنایات واحسانات اور اپنی تقصیر کے مابین موازنہ کرے، یہ چیز لامحالہ اس کے لیے حیا کی موجب ہوگی۔ یہ ہر لحاظ سے حرماں نصیبی ہے کہ بندہ اس معاملے میں غافل رہے اور ان لوگوں کے مشابہ ہوجائے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کوفراموش کردیا اور اس کے ذکر سے اور اس کے حق کو ادا کرنے سے غافل ہوگئے۔ وہ اپنے حظوظ نفس اور اس کی شہوات کی طرف متوجہ ہوگئے ۔پس وہ کامیاب ہوئے نہ کوئی فائدہ حاصل کرسکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ان کے مصالح کو فراموش کرادیا اور ان کو ان مصالح کے منافع سے غافل کردیا ۔ان کا معاملہ افراط وتفریط کا شکار ہوگیا، تب وہ دنیا وآخرت کے خسارے کی طرف لوٹ گئے اور ایسے نقصان میں پڑگئے کہ جس کا تدارک ممکن ہے نہ اس کی اصلاح کیونکہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو اپنے رب کی اطاعت سے نکل کر اس کی نافرمانیوں میں مبتلا ہوگئے۔ پس وہ شخص جو تقوٰی کی حفاظت کرتا ہے اور اس چیز پر نظر رکھتا ہے جو اس نے کل کے لیے آگے بھیجی ہے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، یعنی نبیوں، صدیقین، شہدا ءاور صالحین کے ساتھ نعمتوں بھری جنت اور تکدر سے پاک زندگی کا مستحق ہوا اور وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہوا ،اس نے اس کے حقوق فراموش کردیے پس وہ دنیا میں بدبخت ٹھہرا اور آخرت میں عذاب کا مستحق ہوا ،کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ نہیں! یقینا نہیں! پہلی قسم کے لوگ کامیاب ہیں اور دوسری قسم کے لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حقائق کو واضح کردیا اور اس نے اپنی کتاب عزیز میں اپنے بندوں کو اوامر ونواہی عطا کیے تو یہ چیز اس بات کی موجب تھی کہ وہ اسکی طرف سبقت کرنے میں جلدی کرتے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان کو دعوت اور ترغیب دی، خواہ وہ قساوت اور صلابت قلبی میں مضبوط پہاڑوں کی مانند ہی کیوں نہ ہوتے ۔اگر یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی نازل کردیا جاتا تو آپ اسے خشیت الٰہی سے عاجز اور ٹکڑے ٹکڑے ہوا پاتے۔ یعنی اس کا سبب دلوں میں اس کی کمال تاثیر ہے کیونکہ قرآن کے مواعظ علی الاطلاق سب سے بڑے مواعظ ہیں۔ اس کے اوامر ونواہی حکمتوں اور مصالح پر مشتمل ہیں، یہ نفوس کے لیے سب سے زیادہ سہل اور ابدان کے لیے سب سے زیادہ آسان ہیں ،یہ ہر قسم کے تکلف سے خالی ہیں ،ان میں کوئی تناقض ہے نہ اختلاف، ان پر عمل کرنے میں کوئی صعوبت ہے نہ بے راہ روی، یہ اوامر ونواہی ہر زمان ومکان کے لیے درست اور ہر شخص کے لائق ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنے بندوں کے سامنے حرام اور حلال واضح کرتا ہے تاکہ وہ اس کی آیات میں تفکر وتدبر کریں ،کیونکہ آیات الٰہی میں تفکر، بندے کے لیے علم کے خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے ،اس کے سامنے خیر اور شر کے راستوں کو واضح کردیتا ہے اور اس کو مکارم اخلاق اور محاسن عادات کی ترغیب دیتا ہے اور برے اخلاق سے اسے روکتا ہے، لہٰذا بندے کے لیے قرآن میں تفکر اور اس کے معانی میں تدبر سے بڑھ کر کوئی چیز فائدہ مند نہیں۔